کیا مزار پر حاضری سے مشکل کا حل ہوتا ہے؟ ایک غلط فہمی کی اصلاح
 |
Qabron ka ehtaram magar madad sirf Allah se
|
آج کے دور میں یہ عام رواج بن چکا ہے کہ لوگ اپنی ہر مشکل، بیماری یا حاجت کے حل کے لیے بزرگوں سے مدد کے قائل ہیں۔ مزاروں، درگاہوں یا پیروں ،بزرگوں کی قبروں پر حاضری دینا دینی فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ کوئی چادر چڑھاتا ہے، کوئی منت مانتا ہے، کوئی مزار کی مٹی آنکھوں سے لگاتا ہے — مگر ایک سوال یہ ہے کہ Kya Mazaar par haazri se Mushkil ka hal hota hai اگر مزار پر حاضری سے مسئلے حل ہوجاتے تو دنیا میں شاید کوئی غمگین یا پریشان انسان باقی نہ رہتا۔ہم اسلامی تعلیمات کے خلاف جاکر انہی میں اپنے مشکلوں کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ جبکہ یہ قرآن و سنت کے مطابق عقیدہ نہیں ہے۔
is Article ko Hindi me Yahan padhe: Kya Mazaar par haazri se Mushkil ka hal hota hai?
آخر کیا وجہ ہے کہ مزاروں اور درگاہوں پر اتنی بھیڑ لگی رہتی ہے؟کیا واقعی وہاں جانے سے انسان کی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر سوچنے والے دل میں جنم لیتا ہے۔
انسان جب مصیبت میں گھِر جاتا ہے تو کسی سہارا ڈھونڈتا ہے، اور اکثر لوگ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ مزار پر حاضری یا کسی بزرگ کے وسیلے سے منت مانگنے سے ان کی حاجت پوری ہو جائے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی سوچ انسان کو توحید سے دور اور شرکِ اکبر کے قریب کر دیتی ہے۔
اللہ ربّ العزت ہی واحد ذات ہے جو خوشی، غم، بیماری، شفا، طاقت اور کمزوری عطا کرتی ہے۔ اگر مزار پر حاضری سے مشکلات حل ہوتیں تو سب سے پہلے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کی قبرِ مبارک پر ایسا عمل کرتے — مگر تاریخ اور حدیث اس کی کوئی مثال پیش نہیں کرتی۔
💠 اسلامی نقطۂ نظر: مزار پر حاضری اور دعا کا مفہوم
اگر قبروں یا مزاروں کے وسیلے سے دعا مانگنا شریعت میں جائز ہوتا تو سب سے پہلی مثال نبی کریم ﷺ کی قبرِ مبارک سے ہونی چاہیے تھی، مگر ایسا نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں۔
اگر فوت شدگان کے مزاروں یا قبروں پر جا کر ان کے وسیلے سے دعا یا منت مانگنا اسلامی شریعت میں جائز ہوتا تو نبی ﷺ کی قبرِ مبارک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قبر نہیں، اور نہ ہی آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی باعزت اور فضیلت والی ہستی ہے۔
جب ایسی مبارک جگہ پر اس عمل کا کوئی ثبوت نہ صحابہ کرامؓ سے ملتا ہے اور نہ ہی حدیث کی کسی معتبر کتاب میں، تو پھر عام قبروں اور مزاروں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے!
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مصیبت کو دور کرنے والا صرف وہ خود ہے، کوئی بشر، بزرگ یا قبر نہیں۔
"کیا تم غیراللہ سے وہ مانگتے ہو جو اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں؟"(سورۃ النمل: 62)
🌙 شرک کی حقیقت: سب سے بڑا گناہ
توحید اسلام کی بنیاد ہے، اور شرک سب سے بڑا گناہ۔جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے، وہ دراصل اپنی آخرت برباد کرتا ہے۔
اللّٰہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے
"بے شک اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا، مگر اس کے علاوہ جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔"(سورۃ النساء: 48)
وضاحت: لہٰذا جو شخص مزاروں پر جا کر دعا یا منت مانگتا ہے، وہ اپنی لاعلمی میں شرکِ اکبر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔اگر بغیر توبہ مر گیا تو پھر اُسکی کوئی بخششِ نہیں۔
اِبنِ تیمیہ رح فرماتے ہیں:
شِرک وہ ظُلم ہے جِس میں بندہ اپنے ربّ کے حق کو کسی اور کے لئے ثابت کرتا ہے۔
🌾 غلط فہمی کا ازالہ: مزار پر جانے سے شفا نہیں ملتی
بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم مزار پر گئے، دعا مانگی، اور ہماری حاجت پوری ہو گئی۔
بیشک پوری ہو گئی لیکن یہ سوچنے والی بات ہے کہ
دراصل یہ شیطان کی ایک چال ہے — وہ انسان کو تکلیف دیتا ہے، پھر جب وہ شرک کرتا ہے تو اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے، تاکہ انسان یہ سمجھ لے کہ مزار والے نے اسے شفا دی۔جبکہ حقیقت میں یہ شفا نہیں،ایک شیطانی فریب ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِبراھیم علیہ السلام نے کہا"اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔"(سورۃ الشعراء: 80)
اِبراھیم علیہ السلام خود فرما رہے ہیں کہ اللّٰہ ہی بیماری سے شفاء دینے والا ہے تو بھلا اللّٰہ کے سِوا کون ہے شفاء دینے والا۔
وضاحت: اللّٰہ کے سِوا کوئی بھی شفا دینے والی ہستی نہیں ہے۔ جب تک اللّٰہ نہ چاہے کوئی بھی ہماری تکلیف اور پریشانی کو دور نہیں کر سکتا۔
صحابہ کا طرزِ عمل:
کیا کبھی کسی صحابی نے نبی ﷺ کی قبر سے کچھ مانگا؟ کبھی نہیں! آئیے کچھ دلیل دیکھیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی حضرت زینبؓ کی آنکھ میں درد تھا، اور وہ ایک یہودی سے 'دم' یعنی جھاڑ پھونک کراتی تھیں تو انہیں آرام مل جاتا تھا۔ جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا: "یہ شیطانی حرکت ہے۔ جب تم یہودی سے دم کراتی ہو تو آنکھ کو تکلیف نہیں پہنچتی، اور جب تم دم کروانا چھوڑ دیتی ہو تو وہ آنکھ کو چھو کر درد پیدا کر دیتا ہے۔ لہٰذا، یہ یہودی سے دم کروانے کے بجائے مَنسُون (مفضّل) طریقۂِ دم اپناؤ۔"
وضاحت: سوچنے کی بات ہے — جب ایک مؤمنہ صحابیہ کو بھی شیطان نقصان پہنچا سکتا ہے تو آج کے گمراہ لوگ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ شیطان آج بھی لوگوں کو مزاروں اور درگاہوں کے وسیلے سے گمراہ کر رہا ہے۔ ایمان والوں کو چاہیے کہ سچی توبہ کریں اور اپنی عقیدے کی اصلاح کر لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک وقتی مشکل کے بدلے اپنا ایمان کھو بیٹھیں۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کا واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے:
جب وہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے طائف کے مشہور بتخانے "عُزّیٰ" کو گرا کر اس کے تین درخت کاٹ کر واپس آئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے خالد! تم واپس جاؤ، تم نے ابھی کچھ نہیں کیا۔"
حضرت خالد بن ولیدؓ دوبارہ تلوار لے کر وہاں گئے تو دیکھا کہ ایک عورت برہنہ حالت میں، بکھرے بالوں کے ساتھ اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے۔
حضرت خالدؓ نے فوراً تلوار کے وار سے اسے دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔
پھر نبی ﷺ کے پاس آکر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"وہ عورت (شیطان) عُزّیٰ تھی جو لوگوں کی خواہشات پوری کرتی تھی۔"
(تفسیر ابنِ کثیر)
🔥 شیطان کی چال: انسان کو شرک میں مبتلا کرنا
جب شیطان کو جنت سے نکالا گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور قسم کھائی کہ وہ انسانوں کو سیدھی راہ سے بھٹکائے گا۔ قرآنِ کریم میں شیطان کا واضح اعلان ہے:
اور شیطان کہتا ہے کہ: میں ان کے سامنے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے آؤں گا اور ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پاؤں گا۔"(الاعراف: 16-17)
شیطان کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان اللہ کے بجائے مخلوق سے امید رکھے، اور مدد مانگنے کے اصل مقام سے ہٹ جائے۔جب انسان اللہ کو چھوڑ کر مزار، قبر یا بزرگ سے مانگتا ہے تو دراصل وہ شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
وضاحت: شیطان نے انسان کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے، اور آج وہی چال کامیاب ہو رہی ہے —
لوگ قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دعا قبول ہو رہی ہے، مگر درحقیقت وہ شیطان کی چال میں پھنس جاتے ہیں۔
🕋 اللہ کی طرف سے ہر بیماری کی شفا یا مشکل کے حل کا وقت مقرر ہے
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک خاص وقت مقرر فرما رکھا ہے — چاہے وہ بیماری کی شفا ہو یا کسی مشکل کا حل۔ ہم اکثر جلد بازی میں نتیجہ چاہتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق سب کچھ طے کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے:
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ(الشعراء 80)
"جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی (اللہ) شفا دیتا ہے۔"
یہ آیت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ شفا صرف دوا یا کسی جگہ سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہوتی ہے۔
اسی طرح، مشکلات کا حل بھی صرف اسی کے قبضے میں ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ مصیبت کے وقت گھبراہٹ یا شرک کی راہ اختیار نہ کرے بلکہ صبر و یقین کے ساتھ دعا کرے اور اسی ایک اللہ پر بھروسہ رکھے۔
اللہ تعالیٰ ہر بندے کی دعا سنتا ہے، لیکن اس کے قبول ہونے کا ایک وقت اور حکمت مقرر ہوتی ہے۔
لہٰذا ہمیں صبر اور یقین کے ساتھ صرف اللہ سے دعا کرنی چاہیے، نہ کہ اس کے بندوں سے۔
وضاحت: بعض اوقات اللہ دعا کو فوراً قبول کرتا ہے، کبھی مؤخر کرتا ہے تاکہ بندہ مزید جھکے اور عاجزی کرے، اور کبھی اس کے بدلے میں بہتر عطا کرتا ہے۔
لہٰذا، ہمیں ہر حال میں توحید پر قائم رہنا اور اپنی حاجتیں صرف اللہ کے سامنے پیش کرنا چاہیے، کیونکہ وہی شافی اور کافی ہے۔
اب ذرا آپ غور و فکر کریں!
دُنیا میں کئی لوگ ہیں جو لوگ صرف اللہ سے مانگتے ہیں وہ مزارات یا درگاہوں پر جا کر منت نہیں مانگتے
تو کیا وہ بھوکے سوتے ہیں؟
یا کیا وہ بے اولاد ہی مر جاتے ہیں؟
یا کیا انہیں بیماری سے شفا نہیں ملتی؟
یا کیا وہ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں؟
بے شک، انہیں بھی دوسروں کی طرح رزق و نعمت ملتی ہے۔
اور جب مزاروں، درگاہوں پر حاضری دینے والوں اور نہ دینے والوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا تو پھر کیوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اُس کا شریک ٹھہرا کر اپنی آخرت ضائع کریں؟
مندروں میں بھی مانگنے والوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں
ہمارے یہاں کئی سارے غیر مسلم ہیں جو مندروں میں عبادت کرتے ہیں اور ان کی مرادیں بھی پوری ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہاں اتنی بھیڑ نہ ہوتی۔ لیکن یاد رہے، کسی درگاہ یا مندر میں جا کر مانگنا شریعت میں جائز نہیں، کیونکہ دینے والا صرف اللہ ہے۔ وہ کافروں اور مشرکوں کو بھی رزق دیتا ہے تاکہ آزمائش باقی رہے — یہ دنیا انسان کے ایمان کا امتحان ہے۔
 |
Allah sunta bhi hai, deta bhi hai — bas usi se maango |
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب میں عبادت گزار اپنی حاجتوں کے لیے دعا کرتے ہیں — کچھ مندر میں، کچھ مزار پر، کچھ چرچ میں۔
اور کبھی کبھی ان کی مرادیں پوری بھی ہوجاتی ہیں۔
لیکن یاد رہے، مراد کا پورا ہونا ہمیشہ حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کبھی آزمائش کے طور پر بھی دیتا ہے، تاکہ انسان اپنی غلط راہ پر اور مضبوط ہوجائے۔
اسی لیے قرآن کہتا ہے:
نُمِدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ(الأنعام 110)
"ہم انہیں ان کی سرکشی میں ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ بھٹکتے رہیں
اس براعظم میں ایک ارب سے زائد لوگ مندروں میں عبادت کرتے ہیں اور ان کی مرادیں بھی پوری ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج وہاں کوئی نہیں جاتا اور نہ ہی اتنی بڑی بھیڑ ہوتی۔ آپ خود جا کر مانگ کر دیکھیں — آپ کی بھی مراد پوری ہو سکتی ہے!
مگر یاد رہے کہ کسی درگاہ یا مندر میں مانگنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ شرعی طور پر وہاں سے مانگنا جائز ہے۔ دینے والا تو اللہ ہی ہے؛ اور اللہ غیر مومنوں اور مشرکین کو بھی رزق و نعمت دیتا ہے۔ اگر وہ غیر مومنوں اور مشرکوں کو ان کے کفریانہ یا مشرکانہ اعمال کی وجہ سے دینا بند کر دے تو اگلے ہی دن سب مشرک اور غیر مومن فوراً ایمان لے آئیں گے۔ مگر تب ہماری انسانیت کی آزمائش کہاں رہ جائے گی؟ یاد رکھیں — یہ دنیا ایک آزمائش کا میدان ہے۔
🌺 کسی جگہ سے مراد کا پورا ہونا اُس کے مقدس برکت ہونے کی دلیل نہیں
اکثر لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اگر کسی جگہ یا بزرگ کے مزار پر جا کر ان کی مراد پوری ہو گئی، تو یہ اس جگہ کی "برکت" یا "قداست" کی دلیل ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مراد کا پورا ہونا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، نہ کہ کسی جگہ یا قبر کی طاقت سے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ (النحل: 53)
“تمہارے پاس جو کچھ بھی نعمت ہے، وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔”
یعنی ہر نعمت، کامیابی، شفا یا حاجت روائی — سب اللہ کی طرف سے ہے۔
اگر کسی کی دعا کسی مزار یا جگہ پر جا کر قبول ہو گئی، تو یہ محض **اتفاق** ہے یہ لازم نہیں کہ وہ جگہ مقدس ہو یا اس میں اللہ کی برکت ہو۔ یا **اللہ کی طرف سے آزمائش** بھی ہو سکتی ہے، تاکہ بندہ سمجھے کہ اصل فاعل کون ہے۔برکت صرف وہاں ہے جہاں اللہ کا حکم اور ذکر ہو۔
انبیاء، اولیاء اور صالحین کی قبریں یقیناً احترام کے قابل ہیں، لیکن احترام اور عبادت میں فرق ہے۔
احترام محبت کا اظہار ہے، مگر عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ انہیں وسیلہ بناکر دعا مانگنا درست نہیں۔
احترام اپنی جگہ، مگر عبادت صرف اللہ کی۔
لہٰذا ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
"قبروں پر جھکنا، وسیلہ بنانا یا حاجت مانگنا عبادت کا حصہ نہیں، بلکہ شرک کا خطرہ رکھتا ہے۔"
اللہ سے براہِ راست دعا کرنا ہی توحید کی روح ہے — کیونکہ وہی سننے والا، قبول کرنے والا اور سب پر قادر ہے۔
کبھی بھی انسان (بنی آدم) سے کوئی حاجت نہ مانگو،
مانگنا ہے تو اُس سے مانگو جس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔
اللّٰه ناراض ہوتا ہے جب تم اُس سے مانگنا چھوڑ دیتے ہو
جبکہ انسان ناراض ہوتا ہے جب تم اُس سے کچھ مانگتے ہو۔
🕋 توحید پر ڈٹے رہو، غیراللہ سے مانگنے سے بچو
توحید دراصل اسلام کی بنیاد ہے — جیسے عمارت کی بنیاد مضبوط ہو تو سارا ڈھانچہ قائم رہتا ہے۔
جب بندہ صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ ہر قسم کے شرک، بدعات اور گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔
قرآنِ مجید ہمیں بارہا یاد دلاتا ہے کہ:
"اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں، کوئی حاجت روا نہیں۔" اگر بندہ مخلوق سے مانگنا چھوڑ کر خالق سے مانگنے لگے، تو اللہ تعالیٰ خود اس کے دل کو سکون، روزی میں برکت، اور مشکلات میں آسانی عطا کرتا ہے۔
اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا:
“جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے چاہو۔” (ترمذی: 2516)
دین اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دعا صرف اللہ سے مانگی جائے، کیونکہ وہی سننے والا، قبول کرنے والا اور مدد دینے والا ہے۔
"اللہ ہی مصیبت کو دور کرتا ہے اور حاجت روا کرتا ہے۔"(سورۃ النمل: 62)
💫 پس اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم اپنی ہر دعا، امید اور التجا صرف اللہ سے وابستہ رکھیں —اسی میں ایمان کی سلامتی اور آخرت کی نجات ہے۔
📖 قرآن و سنت کی روشنی میں نکتہ سمجھیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف طور پر فرمایا کہ جو شخص نبی ﷺ کی ہدایت کے بعد بھی اُن کے طریقے کے خلاف چلے گا، اُس کا انجام جہنم ہے۔ یعنی دین میں اپنی طرف سے نئی عبادت یا طریقہ ایجاد کرنا — چاہے نیت اچھی ہو — اللہ کے نزدیک قبول نہیں۔
1) قرآن کہتا ہے:
"جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس کے لیے ہدایت ظاہر ہو چکی ہو، ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔"(سورۃ النساء: 115)
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے سختی سے منع فرمایا، کیونکہ یہ شرک کی پہلی سیڑھی ہے۔ پہلے لوگ احترام کے طور پر جھکتے تھے، پھر وقت کے ساتھ وہی عمل عبادت بن گیا۔
لہٰذا ہمیں سمجھنا چاہیے کہ:
قبر کی زیارت ثواب ہے، تاکہ موت یاد آئے؛ لیکن قبر پر جھکنا، سجدہ کرنا یا دعا مانگنا گناہ اور گمراہی ہے۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
"قبروں کو سجدہ گاہ نہ بناؤ، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔"(صحیح مسلم: 532)
✨ (Conclusion):
آخر کار یاد رکھئے کہ اللہ ہی واحد حاجت روا، مشکل کشا اور شفا دینے والا ہے۔ قبروں، مزاروں یا درگاہوں پر جا کر مدد مانگنا اگرچہ ظاہری طور پر آسان لگتا ہے، مگر یہ عموماً انسان کو توحید سے دور کر دیتا ہے۔ توحید پر ثابت قدم رہیں — اسی میں ایمان کی حفاظت اور آخرت کی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، صبر، اخلاص اور یقین ہی وہ راستہ ہیں جو دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن ہیں۔ دُعا کریں، توبہ کریں، اور ہر حاجت میں براہِ راست اسی ربِّ کائنات سے مانگیں — یہی حقیقی رہنمائی ہے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمایش کے لیے پیدا کیا ہے،
اور اس کی سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ وہ توحید پر قائم رہے اور شرک سے بچے۔ مزاروں پر جا کر یا غیراللہ سے مدد مانگنا نہ صرف عقیدے کی کمزوری ہے بلکہ ایمان کے زوال کی علامت ہے۔
یاد رکھیں!
نہ کوئی مزار شفا دیتا ہے، نہ کوئی درگاہ مصیبت دور کرتی ہے — دینے والا، سننے والا اور شفا دینے والا صرف اللہ ہے۔جو دل سے اللہ کو پکارے، یقین رکھے، اور گناہوں سے توبہ کرے، اللہ اس کی دعا ضرور سنتا ہے۔مزاروں پر حاضری کا مقصد اگر صرف زیارت، عبرت یا دعائے مغفرت ہو تو یہ جائز ہے، لیکن اگر مدد اور حاجت روائی کے لیے ہو تو یہ شرک کے قریب عمل ہے۔یہ مضمون Kya Mazaar par haazri se Mushkil ka hal hota hai کیسا لگا اپنی رائے ضرور دیں۔
🤲 دُعا: اللّٰہ ہمیں شرک اور بدعت سے محفوظ رکھے،
ہمیں خالص توحید پر قائم رہنے اور ایمانِ کامل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا ربّ العالمین 🤲حقیقت یہ ہے کہ مشکلوں کا حل نہ مزار پر ہے، نہ کسی انسان کے پاس — بلکہ صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے۔
"آج کا دن اصلاح کا دن ہے، کل تو صرف حساب ہوگا۔"
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
🔹 FAQs — مزار پر حاضری اور دعا کے بارے میں عام سوالات
1. کیا مزار پر دعا مانگنا جائز ہے؟
اگر مزار پر صرف اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جائے تو جائز ہے، لیکن اگر دعا مزار والے بزرگ یا کسی اور سے مانگی جائے تو یہ شرک کے قریب عمل ہے۔ عبادت اور حاجت روائی صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔
2. کیا مزار پر جانے سے مرادیں پوری ہوتی ہیں؟
مرادوں کا پورا ہونا ہمیشہ حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بعض اوقات آزمائش کے طور پر بھی بندے کی خواہش پوری کر دیتا ہے۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ انسان صرف اللہ سے مانگے اور اسی پر بھروسہ کرے۔
3. کیا بزرگوں کی قبروں کی زیارت کرنا گناہ ہے؟
نہیں، اگر زیارت کا مقصد عبرت حاصل کرنا، دعاے مغفرت کرنا یا ایمان کو مضبوط کرنا ہو تو یہ جائز اور باعثِ ثواب ہے۔ لیکن قبر سے مدد مانگنا، چادر چڑھانا یا نذر و نیاز دینا عرش کرنا درست نہیں۔
4. کیا اللہ مزار یا درگاہ پر مانگی گئی دعا قبول کرتا ہے؟
اللہ تعالیٰ ہر جگہ سے دعا سنتا ہے۔ اگر نیت خالص ہو اور دعا صرف اللہ سے کی جائے تو وہ کہیں سے بھی دعا سنسکتا ہے— دعا قبول ہوسکتی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ دعا صرف اللہ سے ہو، کسی اور سے نہیں اور اسکے لئے مزار یہ درگاہ کی ضرورت نہیں۔ وہاں جاکر دعا کرنا شرعاً جائز نہیں۔
5. اگر مندر یا کسی غیر اسلامی جگہ سے مراد پوری ہوجائے تو کیا یہ درست راستہ ہے؟
نہیں، مراد کا پورا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ راستہ درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی بندے کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنی غلطی کو سمجھے۔ اصل ہدایت وہی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
6. شیطان انسان کو مزاروں یا بزرگوں کی عبادت کی طرف کیوں لے جاتا ہے؟
کیونکہ شیطان کی قسم ہے کہ وہ انسان کو اللہ کے راستے سے ہٹائے گا۔ جب انسان اللہ کے بجائے مخلوق سے مانگنے لگتا ہے، تو شیطان خوش ہوتا ہے کیونکہ یہی اس کا مقصد ہے۔
7. دعا کے قبول ہونے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
دعا اخلاص، یقین اور صبر کے ساتھ مانگی جائے۔ وضو کی حالت میں، قبلہ رخ ہو کر، عاجزی کے ساتھ اللہ سے مانگنا مستحب ہے۔
قرآن میں ہے:
اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ — "مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا" (سورۃ غافر: 60)
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.thanks