نبی ﷺ کے معجزات/Nabi (P.B.U.H) ke Moajjazaat
Nabi (P.B.U.H) ke Moajjazaat سے متعلق جاننے سے پہلے سب سے پہلے قرآن کی اس آیت کو پڑھیں: کسی پیغمبر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی معجزہ/نشانی/آیت لے آئے ۔ (سورہ الرعد:38)
مسلمانوں کی عقیدت میں معجزات کا اہم حصہ ہے۔ ہمیں قرآن مجید میں بھی معجزات کی کئی داستانیں ملتی ہیں جو ایمان کی تصدیق کرتی ہیں جیسے:
موسیٰ علیہ السلام کی عصا
* قرآن مجید میں آیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے ایک عصا دی تھی جو معجزہ کے طور پر سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔یہ معجزہ اس وقت ہوا جب موسیٰ علیہ السلام اپنے قوم کو فرعون کی ظلم و جبر کے زیرِ بار لیتے ہوئے سمندر کو پار کر وارہے تھے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی شفا
* قرآن مجید میں آیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے انسانوں کو شفا دی، اندھوں کو نظر دی، اور مردوں کو زندہ کیا۔ یہ معجزہ اس وقت ہوا جب عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے مطابق انسانوں کی مدد کی وغیرہ وغیرہ.
Nabi (P.B.U.H) ke Moajjazaat اسلام کی سچائی اور نبی ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے، جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور جس کی فصاحت و بلاغت، علمی اور روحانی گہرائی نے دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں اور دانشوروں کو حیران کر دیا۔ایک اور اہم معجزہ معراج کا واقعہ ہے، جس میں نبی کریم ﷺ کو رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے سات آسمانوں تک لے جایا گیا۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے جنت، دوزخ، اور مختلف انبیاء سے ملاقات کی، اور اللہ تعالیٰ سے کلام کی۔
مختلف مواقع پر آپ ﷺ نے پانی کے چشمے جاری کیے، تھوڑے سے کھانے کو کثرت سے بڑھا دیا، اور بیماروں کو شفا دی۔ غزوہ بدر میں فرشتوں کی مدد، چاند کا دو ٹکڑے ہونا اور درختوں کا آپ ﷺ کی طرف جھک جانا بھی اہم معجزات میں شامل ہیں۔یہ معجزات نہ صرف اس وقت کے لوگوں کے ایمان کو مضبوط کرتے تھے بلکہ آج بھی مسلمانوں کے عقیدے کی بنیاد ہیں۔ ان معجزات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی نبوت اور رسالت کی حقانیت کو واضح کیا
Read This:Sote waqt ke Dua Aur aadab
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
آئیے کتاب و سنت کی روشنی میں Nabi (P.B.U.H) ke Moajjazaat سے متعلق کچھ اور احادیث مبارکہ دیکھتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معجزات سے متعلق جانتے ہیں .
چاند کے دو ٹکڑے ہونا
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں ، مکہ والوں نے رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں ، تو آپ ﷺ نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دکھایا ، حتی کہ انہوں نے حرا کو ان دو ٹکڑوں کے درمیان دیکھا ۔ متفق علیہ ۔(مشکوٰۃ المصابیح:5854)
دعاء کی برکت سے تھوڑا سا کھانا ہر کسی کے لیے کافی ہو گیا
اعمش نے ابوصالح سے ، انہوں نے ( اعمش کو شک ہے ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ غزوہ تبوک کے دن ( سفر میں ) لوگوں کو ( زادراہ ختم ہو جانے کی بنا پر ) فاقے لاحق ہو گئے ۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم پانی ڈھونے والے اونٹ ذبح کر لیں ، ( ان کا گوشت ) کھائیں اور ( ان کی چربی کا ) تیل بنائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایسا کر لو ۔‘‘ ( کہا : ) اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کی : اللہ کے رسول ! اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی ، اس کے بجائے آپ سب لوگوں کو ان کے بچے ہوئے زادراہ سمیت بلوا لیجیے ، پھر اس پر ان کے لیے اللہ سے برکت کی دعا کیجیے ، امید ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ٹھیک ہے ۔‘‘ ( حضرت ابوہریرہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان منگوا کر بچھا دیا ، پھر لوگوں کا بچا ہوا زادراہ منگوایا ( حضرت ابوہریرہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) کوئی مٹھی بھر مکئی ، کوئی مٹھی بھر کھجور اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لانے لگا یہاں تک کہ ان چیزوں سے دسترخوان پر تھوڑی سی مقدار جمع ہو گئی ( حضرت ابوہریرہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) رسول اللہ ﷺ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی ، پھر لوگوں سے فرمایا :’’ اپنے اپنے برتنوں میں ( ڈال کر ) لے جاؤ ۔‘‘ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ انہوں نے لشکر کے برتنوں میں کوئی برتن بھرے بغیر نہ چھوڑا ( حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) اس کے بعد سب نے مل کر ( اس دسترخوان سے ) سیر ہو کر کھایا لیکن کھانا پھر بھی بچا رہا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ( لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا :’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ ان دونوں میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا اسے جنت ( میں داخل ہونے ) سے نہیں روکا جائے گا ۔(صحیح مُسلم:139)
Read this : Jashn e eid miladun Nabi
انگلیوں کے درمیان سے چشموں کی طرح پانی کا نکلنا
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓ کو پیاس لگی ، جبکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا ، آپ نے اس سے وضو کیا ، پھر لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے ، اور عرض کیا ، ہمارے پاس پانی نہیں جس سے ہم وضو کر سکیں اور پی سکیں ، فقط وہی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے ، نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک چھاگل میں رکھا ، اور آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی بہنے لگا ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم نے پانی پیا اور وضو کیا ، جابر سے دریافت کیا گیا ، اس وقت تمہاری تعداد کتنی تھی ؟ انہوں نے فرمایا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی ہمیں کافی ہوتا ، البتہ ہم اس وقت پندرہ سو تھے ۔ متفق علیہ ۔(مشکوٰۃ المصابیح:5882)
درختوں کا چلنا اور آپ کے لئے پردہ کرنا
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے حتیٰ کہ ہم نے ایک وسیع وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے ، آپ نے اوٹ کے لیے کوئی چیز نہ دیکھی البتہ وادی کے کنارے پر دو درخت دیکھے ، رسول اللہ ﷺ ان میں سے ایک کی طرف چل دیے ، اور اس کی ایک شاخ پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر ۔‘‘ چنانچہ اس نے نکیل دیئے ہوئے اونٹ کی طرح جھک کر آپ کے اوپر پردہ کیا ، جس طرح وہ اپنے قائد کی اطاعت کرتا ہے ، پھر آپ ﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی ایک شاخ کو پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر ۔‘‘ وہ بھی اسی طرح آپ پر جھک گیا ، حتیٰ کہ جب وہ دونوں نصف فاصلے پر پہنچ گئے تو فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر سایہ کر دو ۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں قریب ہو گئے (حتیٰ کہ آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے) میں بیٹھا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ، اور میں نے دونوں درختوں کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ہو گئے ، اور ہر ایک اپنے تنے پر کھڑا ہو گیا ۔ رواہ مسلم ۔(مشکوٰۃ المصابیح:5885)
Read This:Dua sirf Allah Se
جب احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ لرزنے لگا
نبی کریم ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے ، پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضرت ﷺ نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا ” احد ! ٹھہرا رہ کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں ۔“(صحیح بُخاری:3686)
Telegram Group
Join Now
انگلیوں کے درمیان سے پانی کا پھوٹنا
( حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : پھر ہم لشکر کے پاس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جابر ! وضو کے پانی کے لیے آواز دو ۔‘‘ تو میں نے ( ہر جگہ پکار کر ) کہا : کیا وضو کا پانی نہیں ہے ؟ کیا وضو کا پانی نہیں ہے ؟ کیا وضو کا پانی نہیں ہے ؟ کہا : میں نے عرض کی : اللہ کے رسول مجھے قافلے میں ایک قطرہ ( پانی ) نہیں ملا ۔ انصار میں سے ایک آدمی تھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے اپنے پرانے مشکیزے میں پانی ڈال کر اسے کھجور کی ٹہنی ( سے بنی ہوئی ) کھونٹی سے لٹکا کر ٹھنڈا کیا کرتا تھا ۔ ( جابر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : آپ نے مجھ سے فرمایا :’’ فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو اس کے پرانے مشکیزے میں کچھ ہے ؟‘‘ کہا : میں گیا ، اس کے اندر دیکھا تو مجھے اس ( مشکیزے ) کے منہ والی جگہ پر ایک قطرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا ۔ اگر میں اسے ( دوسرے برتن میں ) نکالتا تو اس کا خشک حصہ ہی اسے پی لیتا ۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی : اللہ کے رسول ! مجھے اس ( مشکیزے ) کے منہ میں پانی کے ایک قطرے کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی لے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ ۔‘‘ میں اسے آپ کے پاس لے آیا ۔ آپ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنا شروع کیا ، مجھے پتہ نہ چلا کہ آپ نے کیا کہا اور اس ( مشکیزے ) کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبانے اور حرکت دینے لگے ، پھر آپ نے مجھے وہ دے دیا تو فرمایا :’’ جابر ! پانی ( پلانے ) کا بڑا برتن منگواؤ ۔‘‘ میں نے آواز دی : سواروں کا بڑا برتن ( ٹب ) لاؤ ۔ اسے اٹھا کر میرے پاس لایا گیا تو میں نے اسے آپ کے سامنے رکھ دیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ پیالے میں اس طرح کیا ، اسے پھیلایا اور اپنی انگلیاں الگ الگ کیں ، پھر اسے برتن کی تہہ میں رکھا اور فرمایا :’’ جابر ! میرے ہاتھ پر پانی انڈیل دو اور بسم اللہ پڑھو !‘‘ میں نے اسے آپ ( کے ہاتھ ) پر انڈیلا اور کہا : بسم اللہ ۔ میں نے پانی کو رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹتے ہوئے دیکھا ، پھر وہ بڑا برتن ( پانی کے جوش سے ) زور سے امڈنے اور گھومنے لگا ، یہاں تک کہ پورا بھر گیا تو آپ نے فرمایا :’’ جابر ! جس جس کو پانی کی ضرورت ہے ، اسے آواز دو ۔‘‘ کہا : لوگ آئے اور پانی لیا ، یہاں تک کہ سب کی ضرورت پوری ہو گئی ، کہا : میں نے اعلان کیا : کوئی باقی ہے جسے ( پانی کی ) ضرورت ہو ؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے برتن سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہ ( اسی طرح ) بھرا ہوا تھا ۔ (صحیح مُسلم:7519)
لعاب مبارک, دعا کی برکت سے ہزاروں کے لئے تھوڑا کھانا کافی ہو گیا
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو میں اپنی اہلیہ کے پاس آیا تو پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے ؟ کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو سخت بھوک کے عالم میں دیکھا ہے ، اس نے ایک تھیلی نکالی اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا ، میں نے اسے ذبح کیا ، جو پیسے حتیٰ کہ ہم نے گوشت کو ہنڈیا میں رکھا ، پھر میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور سرغوشی کے انداز میں عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے اپنا بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا گوندھا ہے ، لہذا آپ تشریف لائیں اور کچھ ساتھیوں کو بھی ساتھ لے چلیں ، لیکن نبی ﷺ نے زور سے آواز دی :’’ خندق والو ! جابر نے ضیافت کا اہتمام کیا ہے ، آؤ جلدی کرو ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میرے آنے تک اپنی ہنڈیا چولہے سے اتارنا نہ روٹی پکانا شروع کرنا ۔‘‘ آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے آٹا نکالا ، آپ نے اس میں اپنا لعاب ملایا اور برکت کی دعا کی ، پھر فرمایا :’’ روٹی پکانے والی کو بلاؤ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکائے اور ہنڈیا سے سالن نکالتے رہو ، لیکن اسے چولہے سے نیچے نہ اتارو ۔‘‘ وہ ایک ہزار کی تعداد میں تھے ، میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ ان سب نے کھا لیا حتیٰ کہ وہ بچ گیا ، اور وہ واپس چلے گئے جبکہ ہماری ہنڈیا پہلے کی طرح بھری ہوئی تھی اور آٹے کی روٹیاں پہلے کی طرح پکائی جا رہی تھیں ۔ متفق علیہ ۔(مشکوٰۃ المصابیح:5877)
کدال کی ایک وار سے چنان کا ریت کی مانند ہو جانا
جابر بیان کرتے ہیں ، ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو ایک بہت چٹان نکل آئی ، صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : خندق میں یہ ایک چٹان نکل آئی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” (اچھا) میں اترتا ہوں ۔ “ پھر آپ کھڑے ہوئے ، اس وقت آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا ، تین دن گزر چکے تھے اور ہم نے کوئی چیز چکھ کر بھی نہیں دیکھی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کدال پکڑ کر ماری تو وہ (چٹان) ایسی ریت کی مانند ہو گئی جو آسانی سے گرتی ہے ،
غیبی خبر کے کل کفار میں سے کون کہاں کہاں قتل ہوگا
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم عمر ؓ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا ، پھر انہوں نے اہل بدر کے متعلق ہمیں بتانا شروع کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے موقع پر کفار کے قتل گاہوں کے متعلق ایک روز پہلے ہی بتا رہے تھے :’’ کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا ، اور کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا ۔‘‘ عمر ؓ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! رسول اللہ ﷺ نے جس جس جگہ کی نشان دہی فرمائی تھی اس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا (وہ وہیں وہیں قتل ہوئے تھے) راوی بیان کرتے ہیں ، ان سب کو ایک دوسرے پر کنویں میں ڈال دیا گیا پھر رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لائے اور فرمایا :’’ اے فلاں بن فلاں ! ، اے فلاں بن فلاں ! اللہ اور اس کے رسول نے تم سے جو وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے اسے سچا پایا ، کیونکہ اللہ نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا میں نے تو اسے سچا پایا ہے ؟‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ بے روح جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں ان سے جو کہہ رہا ہوں وہ اسے تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن وہ مجھے کسی چیز کا جواب نہیں دے سکتے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
(مشکوٰۃ المصابیح:5938)
میری آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی خالہ سیدہ میمونہؓ کے گھر رات گزاری، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو بیدار ہوئے، ہلکا سا وضو کیا اور نماز شروع کر دی، سیدنا ابن عباسؓ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح عمل کیا اور پھر آ کر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بائیں جانب) کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو پھیر کر دائیں جانب کھڑا کر دیا، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہو کر لیٹ گئے، یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، پھر مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا (اور نمازِ فجر کی اطلاع دی)، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے چلے گئے اور وضو نہیں کیا۔ دوسری روایت میں ہے: سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی دو سنتیں پڑھ لیں تو لیٹ گئے اور خرّاٹے لینے لگے، پس ہم عمرو سے کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: میرے آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔ (مسند احمد:775)
دعا کے فوراً بعد بارش ہونا اور انگلیوں کے اشارہ سے بادل کا ہٹنا
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں قحط پڑا ، آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ ! جانور مر گئے اور اہل و عیال دانوں کو ترس گئے ۔ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے ، اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابھی آپ ﷺ نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپ ﷺ ابھی منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا ۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی ۔ ( دوسرے جمعہ کو ) یہی دیہاتی پھر کھڑا ہوا یا کہا کہ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! عمارتیں منہدم ہو گئیں اور جانور ڈوب گئے ۔ آپ ﷺ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے ۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے ۔ آپ ﷺ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے ، ادھر مطلع صاف ہو جاتا ۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناۃ کا نالا مہینہ بھر بہتا رہا اور اردگرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھرپور بارش کی خبر دیتے رہے ۔(صحیح البخاری:933)
👇⏬📖..............................Last Part, part: 2
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
Read This: Subah o Shaam ke Azkaar
پیٹھ کے پیچھے سے دیکھنا
Nabi (P.B.U.H) ke Moajjazaat میں سے ایک معجزہ پیٹھ کے پیچھے سے دیکھنا ہے .رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا منہ ادھر ( قبلہ کی طرف ) ہے ۔ خدا کی قسم تمہارا رکوع اور تمہارا خشوع مجھ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے ، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں ۔(صحیح البخاری:741)
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف کرتے ہوئے فرمایا :’’ صفیں درست رکھو اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو ، کیونکہ میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔‘‘ بخاری ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ صفیں مکمل کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری و مسلم ۔(مشکوٰۃ المصابیح:1086)
کھجور کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنا
نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک درخت ( کے تنے ) کے پاس کھڑے ہوتے ، یا ( بیان کیا کہ ) کھجور کے درخت کے پاس ۔ پھر ایک انصاری عورت نے یا کسی صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک منبر تیار کر دیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر تمہارا جی چاہے تو کر دو ۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے لیے منبر تیار کر دیا ۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آپ اس منبر پر تشریف لے گئے ۔ اس پر اس کھجور کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنے لگی ۔ آنحضرت ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا ۔ جس طرح بچوں کو چپ کرنے کے لیے لوریاں دیتے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اسی طرح اسے چپ کرایا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ تنا اس لیے رو رہا تھا کہ وہ اللہ کے اس ذکر کو سنا کرتا تھا جو اس کے قریب ہوتا تھا ۔(صحیح البخاری:3584)
نبی کریم کے بال مبارک اور قمیض سے شفاء حاصل کرنا
میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا ( راوی حدیث ) اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم ﷺ کے بالوں میں سے کچھ بال تھے ۔ عثمان نے کہا جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن بی بی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا ۔ ( وہ اس میں آنحضرت ﷺ کے بال ڈبو دیتیں ) عثمان نے کہا کہ میں نے نلکی کو دیکھا ( جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے ) تو سرخ سرخ بال دکھائی دیئے (۔صحیح البخاری:5896)
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کا جبہ ہے ، انھوں نے طیلسان ( موٹے کپڑے ) کا ایک کسروانی ( کسریٰ کے عہد میں پہنا جانے والا ) جبہ نکالا جس پر ریشم کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور جس کے دونوں پلوؤں پر دیباج لگا ہوا تھا ۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا : یہ جبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو اس کو میں نے لے لیا ، نبی ﷺ اس جبے کو پہنا کرتے تھے ۔ ہم بیماروں کے لیے اس جبے کو ( پانی میں ڈبو کر ) دھوتے ہیں تاکہ اس ( پانی ) کے ذریعے سے شفا حاصل کریں ۔
(صحیح مُسلم:5409/2069)
Read This: Deen me guloo karna
دعا کے فوراً بعد ابو ہریرہ کے مشرکہ ماں کو ہدایت نصیب ہونا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا ، وہ مشرک تھیں ، ایک دن میں نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایسی باتیں سنا دیں جو مجھے سخت ناپسند تھیں ، میں روتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اللہ کے رسول ! میں اپنی ماں کو اسلام کی طرف بلاتا رہتا تھا اور وہ میرے سامنے انکار کرتی تھیں ۔ آج میں نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے مجھے آپ کے بارے میں ایسی باتیں کہہ دیں جو مجھے سخت بری لگیں ۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا کر دے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا کر دے !‘‘ میں اللہ کے نبی ﷺ کی دعا سے خوش خبری لیتا ہوا ( وہاں سے ) نکلا ۔ جب میں ( گھر ) آیا اور دروازے کے قریب ہوا تو وہ بند تھا ۔ میری ماں نے میرے قدموں کی آہٹ سن لی اور کہنے لگی : ابوہریرہ وہیں رکے رہو ۔ اور میں نے پانی گرنے کی آواز سنی ، کہا : انھوں نے غسل کیا : اپنی لمبی قمیص پہنی اور جلدی میں دوپٹے کے بغیر آئیں ، دروازہ کھولا اور کہنے لگی : ابوہریرہ ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، پھر میں رسول اللہ ﷺ کی طرف واپس ہوا ، میں آپ کے پاس آیا تو خوشی سے رو رہا تھا ، کہا : میں نے عرض کی : اللہ کے رسول خوش خبری ہے ، اللہ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا کر دی ۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور اچھی باتیں کہیں ۔ (صحیح مُسلم:639
جانوروں کی بولی سمجھنا
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے ساتھ سواری پر پیچھے بٹھا لیا اور خاموشی سے مجھے ایک بات بتائی جو میں کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا ، اور رسول اللہ ﷺ کو قضائے حاجت کے لیے چھپنے کی دو جگہیں بہت زیادہ پسند تھیں ۔ یا تو کوئی اونچی جگہ ہوتی ، یا کوئی کھجوروں کا جھنڈ ہوتا ۔ آپ ایک بار ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک اونٹ تھا ، جب اس نے نبی ﷺ کو دیکھا تو رونی سی آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ چپ ہو گیا ۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا :’’ اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ یہ کس کا اونٹ ہے ؟‘‘ تو ایک انصاری جوان آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میرا ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتا جس کا اس نے تجھ کو مالک بنایا ہے ‘ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا اور بہت تھکاتا ہے ۔‘‘
(ابو داؤد:2549)
دعاء کی برکت سے تھوڑا سا کھانا ہر کسی کیلئے کافی ہو گیا
غزوہ تبوک کے دن ( سفر میں ) لوگوں کو ( زادراہ ختم ہو جانے کی بنا پر ) فاقے لاحق ہو گئے ۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم پانی ڈھونے والے اونٹ ذبح کر لیں ، ( ان کا گوشت ) کھائیں اور ( ان کی چربی کا ) تیل بنائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایسا کر لو ۔‘‘ ( کہا : ) اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کی : اللہ کے رسول ! اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی ، اس کے بجائے آپ سب لوگوں کو ان کے بچے ہوئے زادراہ سمیت بلوا لیجیے ، پھر اس پر ان کے لیے اللہ سے برکت کی دعا کیجیے ، امید ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ٹھیک ہے ۔‘‘ ( حضرت ابوہریرہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان منگوا کر بچھا دیا ، پھر لوگوں کا بچا ہوا زادراہ منگوایا ( حضرت ابوہریرہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) کوئی مٹھی بھر مکئی ، کوئی مٹھی بھر کھجور اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لانے لگا یہاں تک کہ ان چیزوں سے دسترخوان پر تھوڑی سی مقدار جمع ہو گئی ( حضرت ابوہریرہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) رسول اللہ ﷺ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی ، پھر لوگوں سے فرمایا :’’ اپنے اپنے برتنوں میں ( ڈال کر ) لے جاؤ ۔‘‘ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ انہوں نے لشکر کے برتنوں میں کوئی برتن بھرے بغیر نہ چھوڑا ( حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما نے کہا : ) اس کے بعد سب نے مل کر ( اس دسترخوان سے ) سیر ہو کر کھایا لیکن کھانا پھر بھی بچا رہا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ( لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا :’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ ان دونوں میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا اسے جنت ( میں داخل ہونے ) سے نہیں روکا جائے گا ۔
(صحیح مُسلم:139)
غیبی خبر کی یہ شخص جہنمیوں میں سے ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ حنین میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے ، رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں ، جو آپ کے ساتھ تھا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا تھا ، فرمایا :’’ یہ جہنمیوں میں سے ہے ۔‘‘ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بہت جرأت کے ساتھ لڑا اور بہت زیادہ زخمی ہو گیا ، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں کہ آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے اس نے تو اللہ کی راہ میں بہت جرأت کے ساتھ لڑائی لڑی ہے اور اس نے بہت زیادہ زخم کھائے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! وہ جہنمیوں میں سے ہے ۔‘‘ قریب تھا کہ بعض لوگ شک و شبہ کا شکار ہو جاتے ، وہ آدمی ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ اس آدمی نے زخموں کی تکلیف محسوس کی اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک تیر نکالا اور اسے اپنے سینے میں پیوست کر لیا ، مسلمان یہ منظر دیکھ کر دوڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کی بات سچ کر دکھائی ، فلاں شخص نے اپنے سینے میں تیر پیوست کر کے خودکشی کر لی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، بلال ! کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے ، بے شک اللہ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔(مشکوٰۃ المصابیح:5892)
انگلیوں کے درمیان سے فوارے کی طرح پانی کا پھوٹنا
معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اور تم لوگ ان سے ڈرتے ہو ۔ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہو گیا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو ۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے ۔ آپ نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا : برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا اور ہم تو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کھاتے وقت کھانے کی تسبیح سنتے تھے ۔(صحیح البخاری:3579)
دعاء کی برکت سے ابو ہریرہ کو قوّت حافظہ نصیب ہونا
میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں آپ ﷺ سے بہت باتیں سنتا ہوں ، مگر بھول جاتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ ، میں نے اپنی چادر پھیلائی ، آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور ( میری چادر میں ڈال دی ) فرمایا کہ ( چادر کو ) لپیٹ لو ۔ میں نے چادر کو ( اپنے بدن پر ) لپیٹ لیا ، پھر ( اس کے بعد ) میں کوئی چیز نہیں بھولا ۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ ( یوں ) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس ( چادر ) میں ڈال دی ۔(صحیح البخاری:119)
نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اور منہ دھوئے ہوئے پانی کو چشمہ میں ڈالنے سے چشمہ جوش مار کے بہنے لگا
غزوه تابوق کے موقع پر ایک دن آپ ﷺ نے نماز میں دیر کر دی ، پھر آپ اندر تشریف لے گئے ، اس کے بعد آپ پھر باہر نکلے اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھیں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کل تم ان شاء اللہ تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور تم دن چڑھنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے ، تم میں سے جو شخص بھی اس چشمے کے پاس جائے وہ میرے آنے تک اس کے پانی کے ایک قطرے کو بھی نہ چھوئے ۔‘‘ ہم اس ( چشمے ) پر آئے تو دو آدمی ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے ۔ وہ چشمہ جوتے کے ایک تسمے جتنا ( نظر آ رہا ) تھا ، بہت معمولی پانی رس رہا تھا ۔ کہا : رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے پوچھا :’’ تم نے ان کے پانی کو چھوا تھا ؟‘‘ دونوں نے کہا : جی ہاں ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو سخت سست کہا اور جو اللہ نے چاہا آپ نے ان سے کہا ۔ کہا : پھر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اس چشمے میں سے تھوڑی تھوڑی مقدار نکالی تو کسی چیز میں ( کچھ پانی ) اکٹھا ہو گیا ۔ آپ نے اس پانی میں اپنے ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا اور اسے دوبارہ چشمے کے اندر ڈال دیا ، تو وہ چشمہ امڈتے ہوئے پانی ، یا کہا : بہت زیادہ پانی کے ساتھ بہنے لگا ۔۔ ابوعلی کو شک ہے کہ ( ان کے استاد نے ) دونوں میں سے کون سا لفظ کہا تھا ۔۔ تو لوگوں نے اچھی طرح پانی پیا ( اور ذخیرہ کیا ) ، پھر ( رسول اللہ ﷺ نے ) فرمایا :’’ ( وہ وقت ) قریب ہے ، معاذ ! اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ یہاں جو جگہ ہے وہ گھنے باغات سے لہلہا اٹھے گی ۔‘‘(صحیح مُسلم:5947)
پسینہ مبارک بہترین خوشبو اور بچوں کے لئے برکت
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : نبی ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے ، دوپہر کے آرام کے لیے سو گئے تو آپ کو پسینہ آ گیا ، میری والدہ ایک شیشی لے آئیں اور ( چمڑے کے بچھونے سے آپ کا ) پسینہ انگلی کے ذریعے سے اس میں اکٹھا کرنے لگیں ، رسول اللہ ﷺ جاگ گئے تو آپ نے فرمایا :’’ ام سلیم ! یہ کیا کر رہی ہو ؟‘‘ وہ کہنے لگیں : یہ آپ کا پسینہ ہے ، اسے ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے ، یہ ( دنیا کی ) ہر خوشبو سے زیادہ اچھی خوشبو ہے ۔(صحیح مُسلم:6055)
حضرت ام سلیم ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے ہاں تشریف لایا کرتے اور وہیں قیلولہ فرمایا کرتے تھے ، وہ چمڑے کی چٹائی بچھا دیتیں اور آپ اس پر قیلولہ فرماتے ، آپ کو پسینہ بہت آتا تھا ، وہ آپ کا پسینہ جمع کر لیتیں اور پھر اسے خوشبو میں شامل کر لیتیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ام سلیم ! یہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : آپ کا پسینہ ہے ، ہم اسے اپنی خوشبو کے ساتھ ملا لیتے ہیں ، آپ کا پسینہ ایک بہترین خوشبو ہے ، ایک دوسری روایت میں ہے ۔ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اس کے ذریعے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے ٹھیک کیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔(مشکوٰۃ المصابیح:5788)
ٹوٹی ہوئی ہڈی کا جڑنا
حضرت براء ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کی طرف بھیجا ، عبداللہ بن عتیک ؓ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہو گئے اور اسے قتل کر دیا ، عبداللہ بن عتیک ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے تلوار اس کے پیٹ میں اتار دی حتیٰ کہ وہ اس کی پشت تک پہنچ گئی ، جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے ، تو میں دروازے کھولنے لگا حتیٰ کہ میں آخری زینے تک پہنچ گیا ، میں نے اپنا پاؤں رکھا اور میں گر گیا ، چاندنی رات تھی ، میری پنڈلی ٹوٹ گئی ، میں نے عمامے کے ساتھ اس پر پٹی باندھی ، اور میں اپنے ساتھیوں کے پاس چلا آیا پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پورا واقعہ بیان کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنا پاؤں پھیلاؤ ۔‘‘ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ ایسے ہو گیا جیسے کبھی اس میں تکلیف ہوئی ہی نہ تھی ۔ رواہ البخاری ۔
(مشکوٰۃ المصابیح:5876)
Read This: Shirk Kya hain?
بیٹھ کر نماز پڑھنا
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، مجھے کسی نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آدمی کا بیٹھ کر نماز پڑھنا ، نصف نماز کی طرح ہے ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے پایا تو میں نے اپنا ہاتھ آپ کے سر پر رکھ دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عبداللہ بن عمرو ! تمہیں کیا ہوا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے بتایا گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے :’’ آدمی کا بیٹھ کر نماز پڑھنا ، نصف نماز کی طرح ہے ۔‘‘ جب کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ٹھیک ہے ، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔(مشکوٰۃ المصابیح:1252)
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
:Conclusion
Nabi (P.B.U.H) ke Moajjazaat ان کی نبوت اور رسالت کی واضح دلیل ہیں، جو ان کے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں اور اسلام کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ قرآن مجید، جو سب سے بڑا معجزہ ہے، نہ صرف ادبی اور علمی لحاظ سے بےمثال ہے بلکہ روحانی رہنمائی کا سرچشمہ بھی ہے۔ معراج کا واقعہ، پانی اور کھانے کی کثرت، بیماروں کی شفا، چاند کا دو ٹکڑے ہونا، اور فرشتوں کی مدد جیسے معجزات نے نبی ﷺ کی حقانیت کو دنیا پر واضح کیا۔
یہ معجزات صرف ماضی کی داستانیں نہیں بلکہ آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کے معجزات ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کی قدرت لا محدود ہے۔ ان معجزات کی تصدیق سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ یہ معجزات نبی اکرم ﷺ کی سیرت
طیبہ کے روشن پہلو ہیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔
:FAQs
1.سوال: نبی اکرم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ کیا ہے؟
جواب: نبی اکرم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے، جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے۔
2. سوال: معراج کا واقعہ کیا ہے؟
جواب: معراج کا واقعہ وہ ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کو ایک رات میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے سات آسمانوں تک لے جایا گیا، جہاں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اور جنت و دوزخ کا مشاہدہ کیا۔
3. سوال: نبی اکرم ﷺ نے پانی کے چشمے کیسے جاری کیے؟
جواب: مختلف مواقع پر، جب صحابہ کرام پانی کی قلت کا شکار ہوئے، نبی اکرم ﷺ نے اپنی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کیے جو معجزانہ طور پر بڑھتا گیا اور سب نے سیر ہوکر پیا۔
4. سوال: چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ کیا ہے؟
جواب: کفار مکہ کے مطالبے پر نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا، جو کہ ایک عظیم معجزہ تھا اور بعد میں چاند دوبارہ اپنی اصل حالت میں آ گیا۔
5. سوال: غزوہ بدر میں نبی اکرم ﷺ کو کیا معجزانہ مدد ملی؟
جواب: غزوہ بدر میں نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی مدد ملی، جنہوں نے مسلمانوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے ایمان کو مزید تقویت دی۔
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.thanks