Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat /اہلِ بدعت کے سوالات اور اعتراضات
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:3 |
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:2 میں آپ نے پڑھا کہ اِن کے جو بھی سوالات اور اعتراضات تھے جیسے قرآن کو کتابی شکل دینا, قرآن کو جمع کرنا,قرآن پر اعراب لگانا یا حدیثوں کو کتابی شکل دینا یہ سب دین میں بدعت ہے بعد کے ایجاد ہیں.ان سبھی کا جواب کتاب و سنت کی روشنی میں دیا گیا کہ یہ سب بدعت نہیں بلکہ سنت ہے. اعتراض کرنے والے اگر اپنے مسلک کو چھوڑ کر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کئے ہوتے تو جان پاتے کے دین میں بدعت یا بدعت حسنہ کی کوئی جگہ نہیں.اور اُنکے اعتراضات سبھی غلط ہیں.
اب آئیے Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:3 میں ان کے باقی سوالات اور اعتراضات ملاحظہ فرمائیں.
جمعہ کی نماز میں تیسری اذان کا اضافہ:-
Juma me teesri Azan |
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا، اور لوگ بڑھ گئے تو انہوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا ، وہ اذان مقام زوراء پر دی گئی، پھر اسی پر معاملہ قائم رہا۔(سنن نسائی:1393)
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، 22 (913)، 24 (915)، 25 (916)، سنن ابی داود/الصلاة 225 (1087، 1088، 1089)، سنن الترمذی/الصلاة 255 (الجمعة 20) (516)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 97 (1135)، (تحفة الأشراف: 3799)، مسند احمد 3/449، 450 (صحیح)»
➊ اس روایت میں پہلی اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبۂ جمعہ کے آغاز میں کہی جاتی ہے۔ آج کل اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے۔ حدیث میں مذکور تیسری اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبے کی اذان سے کچھ دیر قبل کہی جاتی ہے تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کر لیں۔ آج کل اسے پہلی اذان کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں اقامت کو بھی اذان کہا گیا ہے تبھی خطبے کی اذان کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان تھی۔
➋ ”لوگ زیادہ ہو گئے“ مدینہ منورہ کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا جب کہ خطبۂ جمعہ صرف مسجد نبوی ہی میں ہوتا تھا۔ اگر ایک ہی اذان (اذان خطبہ) ہوتی تو شہر کے اطراف سے آنے والے نمازی خطبۂ جمعہ بلکہ نماز جمعہ سے بھی محروم رہ جاتے۔ پھر جمعے کے دن بازار لگتا تھا، لوگ خرید و فروخت میں مشغول ہوتے۔ گھڑیاں تھی نہیں۔ جمعے کے وقت کا محق اندازہ کرتے تھے، اس میں غلطی اور تاخیر کے قوی احتمالات تھے، لہٰذا وہیں بازار میں زوراء پر وقت سے اتنی دیر پہلے اذان کہی جاتی تھی کہ اسے سن کر خریدار جلدی جلدی ضرورت کی چیز خرید کر اور دکاندار سامان سمیٹ کر گھر واپس جائیں۔ پھر غسل اور وضو کریں، کپڑے بدلیں، خوشبو لگائیں اور خطبے سے پہلے پہلے مسجد نبوی میں آکر حسب توفیق نماز پڑھیں
➌ ”زوراء“ بازار میں ایک بلند مکان تھا۔ وہاں یہ اذان کہی جاتی تھی تاکہ بلندی کی وجہ سے سارے مدینہ منورہ میں اذان سنائی دے کیونکہ اس (جمعہ) میں سب اہل مدینہ کی شمولیت ضروری تھی بخلاف دیگر نمازوں کے کہ وہ ہر محلے کی مقامی مساجد میں بھی باجماعت پڑھی جاتی تھیں۔
Note: اہلِ بدعت حضرات اگر تھوڑی سی بھی عقل کا اِستعمال کرتے تو عثمان رضی اللہ عنہ کی اس تیسری اذان کو کبھی بدعت نہیں کہتے کیونکہ انہوں نے جس چیز کا اضافہ کیا اُس کی اصل یعنی " اذان کے کلمات" دین میں موجود ہے تو پھر یہ بدعت کیسے ہوئی.اس کا اضافہ تو نمازیوں کی سہولت کے لئے کی گئی.اگر دین میں اذان کا وجود نہ ہوتا تو اسے بدعت کہا جا سکتا اور ان کہ کہنا جائز ہوتا پر افسوس ! کہ دین سے لا علم آندھی تقلید نے انہیں اندھا کر دیا ہے.
Read This: Ahle Bidat Ke Sawalat Aur Aitrazat part:1
فجر کی اذان میں اضافہ:-
اہلِ بدعت حضرات کہتے ہیں کہ صبح کی اذان میں الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ اضافہ ہے. یہ نبی ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا اس لئے یہ دین میں بدعت ہے. آئیے دیکھیں سنت کی روشنی میں کہ یہ بدعت ہے یا سنت.
حضرت ابومحذورہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے پیشانی پر ہاتھ پھیر کر فرمایا :’’ کہو : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، اپنی آواز بلند کرو ، پھر کہو : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَن لَا إِلَه إِلَّا الله أشهد أَن مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، اپنی آواز بلند کرو ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، اگر نماز فجر ہو تو کہو : الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. (رواہ ابو داؤد, مشکوٰۃ المصابیح:645)
سیّدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ہی دوسری سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث مروی ہے اور اس میں مزید اس چیز کا ذکر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان کہنے کا حکم دے دیا۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ انہی کلمات کے ساتھ اذان کہا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا کرتے تھے۔ سیّدناعبد اللہ بن زید کہتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ ایک دن صبح کے وقت فجر کی نماز کے لیے آپ کو بلانے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوئے ہوئے ہیں تو بلال رضی اللہ عنہ نے بآوازِ بلند کہا: الصلاۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے)۔ سعید بن مسیّب کہتے ہیں: تو یہ کلمات فجر کی اذان میں داخل کر دیے گئے۔ (مسند احمد:1267)
حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اذان کہا کرتا تھا اور میں فجر کی پہلی اذان میں [حی علی الفلاح] کے بعد [الصلاۃ خیر من النوم ، الصلاۃ خیر من النوم ، اللہ اکبر اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ] کہا کرتا تھا ۔(سنن نسائی:634,648)
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی نماز کے علاوہ کسی دوسری نماز میں اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ نہ کہوں اور ایک راویٔ حدیث أبو احمد کہتے ہیں کہ سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو اذان کہے تو( فجر کے علاوہ کسی اور اذان میں )اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ نہ کہا کر۔ (مسند احمد:1269)
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجیے ۔ چنانچہ آپ نے میرے سر کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا :’’ یوں کہا کرو : ( الله أكبر الله أكبر ۔ الله أكبر الله أكبر ) اس میں تمہاری آواز خوب بلند ہونی چاہیے ، پھر کہو : ( أشهد أن لا إله إلا الله ۔ أشهد أن لا إله إلا الله ۔ أشهد أن محمدا رسول الله ۔ أشهد أن محمدا رسول الله ) ان کلمات میں تمہاری آواز قدرے پست ہو ۔ پھر اونچی آواز سے کلمات شہادت ( دوبارہ ) کہو : ( أشهد أن لا إله إلا الله ۔ أشهد أن لا إله إلا الله ۔ أشهد أن محمدا رسول الله ۔ أشهد أن محمدا رسول الله ۔ حى على الصلاة ۔ حى على الصلاة ۔ حى على الفلاح ۔ حى على الفلاح ) اگر فجر کی نماز ہو تو کہو : ( الصلاة خير من النوم ۔ الصلاة خير من النوم ) ’’ نماز نیند سے بہتر ہے ۔ نماز نیند سے بہتر ہے ‘‘ ( الله أكبر ۔ الله أكبر ۔ لا إله إلا الله ) ۔ (ابو داؤد:500)
Note: اب بدعتی حضرات سے سوال ہے کہ اب بتائیے یہ سنت ہے یا بدعت. آپ جیسوں نے اپنے پیروں ,بزرگوں اور ملّاؤں کے بہکاوے میں آکر صحابہ تو صحابہ, نبی ﷺ پر بھی الزام لگا دیئے کہ اذان میں بدعت کا اضافہ ہوا ہے. اپنے ایمان کی فکر کریں کہ آپ دائرہ اسلام میں ہیں یا خارج ہو چکے ہیں.
Telegram Group
Join Now
کعبہ پر غلاف:-
اہلِ بدعت حضرات کا یہ بھی اعتراض ہے کہ کعبہ پر غلاف چڑھانا بدعت ہے. یہ عمل نبی ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا . افسوس کہ ان بدعتیوں نے اپنی بدعت کو صحیح اور سنت ثابت کرنے کے لئے اللّٰہ ,اللّٰہ کے رسول ﷺ اور صحابہء کرام پر بھی الزام لگا دیئے کے دین میں اضافہ ہوا ہے .لیکن یہاں بھی انکی کوشش ناکام ہے. آئیے دلیل دیکھیں.
رمضان ( کے روزے ) فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ۔ عاشوراء ہی کے دن ( جاہلیت میں ) کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ ” اب جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے ۔“ (صحیح البخاری:1592)
اب بدعتی سوال کرینگیں کہ یہ تو زمانہ جاہلیت میں ہو رہا تھا. ٹھیک ہے زمانہ جاہلیت میں تھا لیکن نبی ﷺ تو اس وقت موجود تھے اور انہوں نے روکا بھی نہیں. تو کعبہ پر غلاف چڑھانا بدعت یا بعد کی ایجاد نہیں ہے.اب آئیے دوسری حدیث دیکھتے ہیں
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حبشہ کا باریک پنڈلیوں والا ایک حکمران کعبہ کو منہدم کر کے اس کے خزانوں کو لوٹے گا اور اس کا غلاف اتار لے گا، میں گویا کہ اب بھی اسے دیکھ رہا ہوں، اس کا سر گنجا اور پنڈلیاں مڑی ہوئی ہیں اور اس گھر پر اپنا کدال اور گینتی چلا رہا ہے۔ (مسند احمد:13046)
یہاں تو نبی ﷺ آنے والی کل کی اور کعبہ کے غلاف کا بھی ذِکر کر رہے ہیں یعنی کعبہ پر غلاف چڑھانے کا عمل نبی ﷺ کے زمانے سے ہی چلا آ رہا ہے.
Read This: Ahle Bidat Ke Sawalat Aur Aitrazat part:2
کعبہ پر غلاف سے متعلق اور بھی احادیث دیکھیں:-
فتح مکّہ کے موقع پر رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ
بلکہ یہ تو وہ دن ہے جس دین میں اللّٰہ تعالیٰ نے کعبہ کو عظمت عطا فرمائی اور جس دن کعبہ کو لباس پہنایا جاتا ہے. (صحیح البخاری:4280)
رسول اللّٰہ ﷺ کے چچا جان عباس بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ:
🔘كَسَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فِي حَجَّتِهِ الْحُبُرَاتِ
رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنے حج میں( اللّٰہ کے) گھر کعبہ کو حبورات کا لباس پہنایا.
[مسند الحارث /کتاب الحج/باب کسوۃ الکعبہ]
لیث بن ابی سلیم رحم اللّٰہ کا کہنا ہے کہ:
🌼كَانَ كِسْوَةَ الْكَعْبَةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْأَقْطَاعُ وَالْمُسُوحُ
نبی کریم ﷺ کے دور میں کعبہ کا غلاف اقطاع اور مسوح
[مصنف ابن ابی شیبہ /کتاب الحج /باب فِي الْبَيْتِ مَا كَانَتْ كِسْوَتُهُ،]
اقطاع اور مسوح دو مختلف کپڑوں کا نام ہے.
نافع رحم اللّٰہ ابنِ عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
🔮كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْسُو بُدْنَهُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ الْقَبَاطِيَّ وَالْحِبَرَةَ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ أَلْبَسَهَا إِيَّاهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ نَزَعَهَا، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا إِلَى شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ فَنَاطَهَا عَلَى الْكَعْبَةِ
جب عبداللہ ابن عمر احرام کہ ارادہ کرتے تو اپنے قربانی کے جانور پر قباطی اور حبرت نامی کپڑے لگا دیتے اور عرفات والے دن وہ کپڑے اُسے پہنا دیتے, اور قربانی والے دن وہ کپڑے اتار دیتے اور پھر شیبہ بن عثمان (جو کعبہ کے منتظمین تھے) کو کپڑے بھیج دیتے تو شیبہ بن عثمان وہ کپڑے کعبہ پر لٹکا دیتے.
[اخبار مکہ للأزرقی /ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ "،
"اخبار مکہ للفاکھی /ذِكْرُ ما يجوز ان تكسى به الكعبة من الثياب]
ڈاکٹر عبد الملک نے, اخبار مکی في قدیم الدہر اور حدیث میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے.
الحمدللہ یہ بھی جواب پورا ہوا اور واضح ہوا کی کعبہ کو لباس پہنانا, غلاف چڑھانا, رسول اللّٰہ ﷺ اور صحابہ رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کی سنت میں موجود ہے.پس جو کوئی اس کام کو سنت کے مطابق نہیں جانتا, نہیں سمجھتا تو وہ شخص یا تو جاھل ہے یا پھر اپنے مذہب و مسلک کی تائید میں حق پوشی کر رہا ہے.
مسجد کی مینار بنانا, مائک میں اذان دینا یا مائک میں نماز پڑھانا
کچھ لوگ میناروں کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کو خلافِ سنت اور بدعت سمجھتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں مسجدیں پکی اور ان پر مینار یا گنبد نہیں تھے اس لیے یہ بدعت ہے. اور یہی نہیں بلکہ مائک میں اذان دینا یا نماز پڑھانا اسے بھی دین میں بدعت شمار کرتے ہیں. افسوس ہے ! انکی سوچ پر.
اگر تھوڑی سی بھی عقل کا استعمال کرتے تو یہ سمجھ جاتے کہ مینار مسجدوں کی علامت ہیں. اور مسجد اللّٰہ کا گھر اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے. مینار یا گنبد کی وجہ سے دور سے ہی پہچان لی جاتی ہیں کے یہ مسجد ہے اور نمازی وقت پر اپنی نماز ادا کر سکتے ہیں. اور دوسری بات جہاں بڑی بڑی لمبی عمارتوں کے درمیان چھپی ہوئی مساجد ہوتی ہیں وہ میناروں کی وجہ سے ہی پہچانی جاتی ہیں.اگر یہ مینار نہ ہو تو پھر دور دراج کے نمازی مسجد کو پہچان ہی نہیں پائیں گے.
اور سب سے اہم بات کہ کیا اہلِ بدعت یہ بتائیں گے کہ جو نماز ہمارے پیارے نبی ﷺ معراج میں لیکر آئے اور خود اس نماز کو پڑھے اور صحابہ کرام کو پڑھائے, مسجدیں پکی اور اُن پر میناریں بنانے یا مائک میں نماز پڑھانے کے بعد,نماز کے طریقے بدل گئے ؟ کیا ان میں کُچّھ کمی بیسی ہو گئی ؟
ایسا کچھ نہیں ہے آج بھی نماز کے طریقے وہی ہے جو نبی ﷺ کے زمانے میں تھے. تو پھر یہ سب بدعت کیسے ہو گیا ؟
مساجد کی تعمیر کرنا یا بنانا اس پر شریعت نے عظیم ثواب دیا ہے، نیز یہ صدقہ جاریہ میں بھی شامل ہے جس کا ثواب اور اجر انسان کی موت کے بعد تک جاری رہے گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
اللہ کی مساجد کی آباد کاری وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ پر ، آخرت کے دن پر ایمان لائیں نماز قائم کریں، زکاۃ ادا کریں، اور صرف اللہ تعالی سے ہی ڈریں، یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔[التوبہ:18]
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے تو اللہ تعالی ویسا ہی محل جنت میں تعمیر فرماتا ہے) بخاری : (450) مسلم: (533)
مسجد پر گنبد بنانے سے مقصود ہوا کا حصول اور قدرتی روشنی کے ساتھ ساتھ مسجد کی خوبصورتی بھی مقصود ہوتی ہے، ساتھ ساتھ اس کی عمارت شاندار ہو اور دوسری عمارات سے الگ اور ممتاز بھی ہو، لہذا مسجد کی خوبصورتی ، ہوا اور شاندار بنانے کے لیے مسجد پر گنبد بنانا درست ہے، لازم نہیں ہے۔
مسجد پر مینار بنانا ضروری تو نہیں پر جائز و احسن ہے اور یہ بھی مصلحت مسجد ہے لگانے والے کو ثواب بھی ملے گا کیونکہ یہ مسجد کی علامت کے طور پر بنتا ہے اور یہ مسجد کی علامت ہے مسجد اللہ کا گھر ہے اورہماری مقدس عبادت گاہ اور گھروں سے امتیاز کے لیے پہچان کے لیے مینار بنایا جاتا ہے عرف میں آج کل مسجد کی شناخت کے لیے ضروری ہی سمجھا جاتا ہے یہ مینار محض شاخت اور امتیاز کے لیے لگایا جاتا ہے تاکہ دوسرے مکانوں اور گھروں سے ممتاز ہو جائے اس سے مسجد کی شان و عظمت بھی نمایاں ہوتی ہے دیکھئے مسجد حرام مکہ مکرمہ کے مینار اور مسجد نبوی کے مینار اس سے مسجد کاوقار اس کی شان او رعظمت میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسری بستی سے آنے والا مسافر آسانی سے نماز کے لیے مسجد میں پہنچ جاتا ہے۔
بزرگان دین کی قبور پر گنبد تعمیر کرنے والے ثواب سمجھتے ہیں اور ان کی ایک فکر یہ بھی ہے کہ مزارات پر گنبد وں کی تعمیر سنت ہے اور اس کی دلیل عموماً یہ دی جاتی ہے کہ اگر مزارات پر گنبد بنانا شرعاً ممنوع ہے تو پھر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم گنبد کیا بدعت کے زمرے میں آتا ہے ؟
اگر مزارات پر گنبد کی تعمیر بدعت ہے تو پھر اس تعمیر گنبد کو بدعت کہنے والے گنبدخضریٰ پر تنقید کیوں نہیں کرتے ؟ اسے گرانے کی مہم کیوں نہیں چلاتے ؟ اس قسم کے سوالات وہ لوگ کرتے ہیں جو کہلواتے تو اہل سنت ہیں لیکن درحقیقت وہ اہل بدعت ہیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ گنبد خصریٰ کی تعمیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی اور نہ ہی اسے خلفائے راشدین یا صحابہ کرام میں سے کسی نے تعمیر کیا ۔
لہٰذا تعمیر گنبد کو سنت کہنا اور سمجھنا بالکل غلط اور نا جائز ہے۔
دوسری بات یہ کہ گنبد خصریٰ مسجد نبوی کا ایک حصہ ہے اور مساجد پر گنبد اور مینار بنانا بدعت نہیں کہلاتا ۔
پھر گنبد خصریٰ کی تعمیر میں جو نیت کار فرما تھی وہ بھی یہی تھی کہ مسجد نبوی کو گنبد کے ذریعے زینت دی جائے
بدعتی اور روافض مملکت سعودیہ پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ جب اس نے تمام گنبد گرائے تو گنبد خضریٰ کو کیوں نہیں گرایا ؟
ان کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ گنبد خضریٰ قبر شریف کا نہیں بلکہ مسجد نبوی کا حصہ ہے اور مساجد پر گنبد بنانے کی شریعت اسلامیہ میں کوئی ممانعت نہیں ہے
مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجّد کی اذان
اہلِ بدعت کا اعتراض کہ مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجّد کی اذان ہوتی ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں.
اہلِ بدعت بدعتی عمل کرتے کرتے غلو تک پہنچ گئے ہیں تبھی تو اپنے پیروں, بزرگوں اور علماء کی تقلید میں کبھی قرآن اور حدیث کی طرف صحیح سے رخ نہیں کیا. اگر صحیح سے پڑھے ہوتے تو یہ جان جاتے کہ تہجّد کی اذان نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے.یہاں غالباً فجر کی پہلی اذان کو تہجد کی اذان کہا گیا ہے. اور یہی اذان مکّہ مکرمہ,مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے کئی دیگر شہروں میں دی جاتی ہے.
اور فجر کی پہلی اذان کا ثبوت رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک سے میسّر ہے, ملاحظہ فرمائیں
عبداللہ ابن مسعود رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ - أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ - أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ - أَوْ يُنَادِى - بِلَيْلٍ ، لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ :::
تم میں سے کوئی بھی بلال کی اذان پر اپنی سحری کو نہ روکے, بلال تو (فجر کے وقت سے پہلے) رات میں سوئے ہوئے کو آگاہ, خبردار کرنے کے لئے اذان ڈیٹا ہے, پُکار لگاتا ہے اور اس لئے کہ تم لوگوں میں قیام کرنے والا سحری کی طرف واپس آئے . (صحیح البخاری:621, صحیح مسلم:2593)
ماں عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ
بلال تو (فجر سے پہلے) رات میں اذان دیتا ہے. لہٰذا تم لوگ اس وقت تک سحری کھاتے پیتے رہو جب تک کہ عبداللہ ابن اُم مکتوم اذان نہ دے.
(صحیح البخاری:623, صحیح مسلم:2588)
لیجئے الحَمدُ للّہ رسول اللہ ﷺ کے دورِ مبارک میں, اور یقیناً آپ ﷺ کی اجازت سے فجر کی دو اذانوں کا ثبوت سامنے ہے.اب اگر کوئی شخص ان احادیث کا علم نہیں رکھتا اور بلا علم سوال و اعتراضات کرتا ہے تو اس کا بوال اُسی پر ہے.اور اگر اسے اُس کا علم ہے,اور جانتے بوجھتے ہوئے فجر کی پہلی اذان کو تہجّد کی پہلی اذان کا نام دے کر بات کو بدلنے کی, حق چھپانے کی کوشش میں ہے تو یہ لا علمی میں اُس کی گئی کوشش اللّٰہ اور اس کے رسول سے بغاوت ہے. دین کے خلاف سازش ہے.
Read This: Mazar par Chadar Aur Qabar parasti
ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں
اہلِ بدعت حضرات نے اپنی ایجاد کردہ بدعت کو سنت ثابت کرنے کے لئے ہر جی جان کوشش کی ہے اور دین کے فرائض سے لیکر سنت تک جو بھی عمل ثابت شدہ ہے اس پر سوالات اور اعتراضات کئے ہیں اور اس کی خاص وجہ دین سے دوری اور بزرگوں کی پرستش ہے.
اعتراض ہے کہ ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں. آئیے دلیل دیکھیں
غسل کعبہ کی اصل قرآن کریم میں ذِکر ہے. حضرت ابراھیم اور اسماعیل علیہ السّلام کو حکم دیا گیا کہ
🕋وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو پابند کیا کی تم دونوں میرے گھر کعبہ کو پاکیزہ کرو,طواف کرنے والوں کے لئے اور قیام کرنے والوں کے لئے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے. (سورہ البقرہ:125)
اور صرف ابراہیم علیہ السّلام کے ذِکر کے ساتھ فرمایا:
وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور میرے گھر کعبہ کو پاکیزہ کرو, طواف کرنے والوں کے لئے اور قیام کرنے والوں کے لئے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے.( سورہ الحج:26)
رسول اللہ ﷺ نے بھی فتح مکّہ کے دن کعبہ شریف کی دیواروں کو پانی سے دھویا
عصمہ بن زبیر رضي اللّٰہ عنہ کا کہنا ہے کہ:
دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الكعبة فرأى صُورًا فدَعَا بدَلوٍ مِن ماءٍ فأتيته به فضَربَ بهِ الصُّورِ ويقول قاتل الله قوماً يُصوِرون ما لا يَخلقُون
میں( فتح مکّہ کے موقع پر) کعبہ میں رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ داخل ہوا, اُسی وقت رسول اللّٰہ ﷺ نے وہاں کعبہ کی دیواروں پر بنی ہوئی تصویر دیکھی تو پانی کے برتن لانے کا حکم فرمایا, تو میں لےکر حاضر ہوا,تو رسول اللّٰہ ﷺ نے اُن پر پانی ڈال کر مٹایا اور ارشاد فرمایا, اللّٰہ انہیں ہلاک کرے جو اُن چیزوں کی تصویر بناتے ہیں جو چیز اُن لوگوں نے تخلیق نہیں کی. (السلسلۃ احادیث الصحیحه:996)
مختصر طور پر یہ واقعہ "اخبار مکۃ للفاکھی /ذكر الْأُمُور الَّتِي صنعها رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَعْبَة" میں بھی مروی ہے.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کعبہ کو ہر قسم کی ناپاکی, گندگی وغیرہ سے صاف کرنا ,پانی سے دھونا رسول اللّٰہ ﷺ کی سنّت مبارکہ سے ثابت ہے.
مزید گواہی کے طور پر یہ بھی ملاحظہ فرمائیں.
عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ:
🔘ثُمَّ أَمَرَ (رُسولُ اللَّہ صَلی اللَّہُ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلَّم ) بِلاَلاً ، فَرَقَيَ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ ، فَأَذَّنَ بِالصَّلاَةِ ، وَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَتَجَرَّدُوا فِي الأُزُرِ ، وَأَخَذُوا الدِّلاَءَ ، وَارْتَجَزُوا عَلَى زَمْزَمَ يَغْسِلُونَ الْكَعْبَةَ ، ظَهْرَهَا وَبَطْنَهَا ، فَلَمْ يَدَعُوا أَثَرًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلاَّ مَحَوْهُ ، أَوْ غَسَلُوهُ.
(پھر فتح مکّہ کے دن) رسول اللّٰہ ﷺ نے بلال رضِی اللّٰہ عنہ کو حکم دیا کہ (کعبہ کے چھت پر چڑھ کر نماز کے لئے اذان کہے) تو بلال کعبہ کی چھت پر چڑھے اور نماز کے لئے اذان دی تو , مسلمانوں نے اپنے اوپری کپڑے اتار دیئے اور صرف اپنے تہبند وغیرہ میں ملبوس رہکر,پانی کے برتن لیکر زم زم پر ٹوٹ پڑے اور زم زم لاکر کعبہ کو باہر اور اندر سے دھویا.اور مشرکین کے اثرات میں کوئی ایسا اثر نہ چھوڑا جسے مٹا نہ دیا,دھو نہ دیا ہو. (مصنّف ابنِ ابی شیبہ,باب 34 حدیث فتح مکّہ)
اپنی باتوں کے جوابات نہ پانے والے صاحبان کو شاید یہ مسئلہ تو معلوم ہوگا کہ جو کام رسول اللّٰہ ﷺ کے سامنے ہوا ہو اور اسے آپ ﷺ نے منع نہ فرمایا ہو تو وہ کام سو فیصد جائز اور درست ہوتا ہے,سنت میں قبولیت یافتہ ہوتا ہے.
اس کے بعد آتے ہیں کعبہ کو خوشبو لگانے اور خوشبو والے پانی سے دھونے کی طرف
امام محمد بن عبداللہ الازراقی رحم اللّٰہ (250 ہجری) نے اپنی کتاب
ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ "
میں اپنی سند سے اُم المومنین عائشہ رضِی اللّٰہ عنہا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
🔘طَيِّبُوا الْبَيْتَ، فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ تَطْهِيرِهِ
اللّٰہ کے گھر یعنی کعبہ کو خوشبودار کرو, کیونکہ ایسا کرنا اُس کو پاکیزہ کرنے میں سے ہے.
اور یہ بھی امّی جان عائشہ عائشہ رضِی اللّٰہ عنہا نے فرمایا:
أُطَيِّبُ الْكَعْبَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُهْدِيَ إِلَيْهَا ذَهَبًا وَفِضَّةً
کعبہ کو خوشبو لگانا مجھے اُس بات سے زیادہ پسند ہے کی میں کعبہ کے لیے سونا چاندی ہدیہ کروں.
اور عبداللہ ابن زبیر کے بارے میں یہ بھی مذکورہ ہی کی:
کانَ يُجَمِّرُ الْكَعْبَةَ كُلَّ يَوْمٍ بِرَطْلٍ مِنْ مُجْمَرٍ، وَيُجَمِّرُ الْكَعْبَةَ كُلَّ يَوْمِ جُمُعَةٍ بِرَطْلَيْنِ مِنْ مُجْمَرٍ
وہ کعبہ کو ہر روز ایک رطل یعنی خوشبو سلگا کر خوشبودار کیا کرتے تھے. اور ہر جمعہ کے دن کعبہ کو دو رطل خوشبو سلگا کر خوشبودار کیا کرتے تھے
اسی باب میں امیر المومنین معاویہ کے بارے میں یہ بھی مذکورہ ہے کہ
كَانَ مُعَاوِيَةُ أَوَّلَ مَنْ طَيِّبَ الْكَعْبَةَ بِالْخَلُوقِ وَالْمُجْمَرِ، وَأَجْرَى الزَّيْتَ لِقَنَادِيلِ الْمَسْجِدِ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ
سب سے پہلے امیر المومنین معاویہ نے خلوق ( زعفران اور دیگر خوشبودار چیزوں کے مجموعہ) اور دیگر سلگائی جانے والی خوشبو کے ذریعہ کعبہ شریف کو باقاعدہ سرکاری سطح پر خوشبودار کیا۔
الحَمدُ للہ ، کعبہ کو غسل دینا قرآن و سنت سے بھی ثابت ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و فعل سے بھی۔
بلکہ صحابہ کرام سے غسل دینے کے علاوہ خوشبو لگانا بھی ثابت ہے۔
اب جو کوئی کعبہ کو غسل دینے کو قرآن و حدیث میں بغیر ثبوت کے کہتا ہے وہ يا تو جاھل ہے یا پھر ایسا جھوٹا متعصب جو اپنے مذہب اور مسلک کی تائید میں غلط بیانی کرتا ہے
Note: اہلِ بدعت اور قبر پرست حضرات کعبہ پر غلاف چڑھانا, کعبہ کو غسل دینا یا خوشبو لگانا اس پر تو اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دین میں بدعت ہے لیکن یہی کام یہ مزاروں پر جا کر کرتے ہیں یعنی پھول چادر چڑھانا, خوشبو لگانا اگر بتی جلانا اسے یہ جائز اور دین کا حصہ سمجھتے ہیں. اور سب سے اہم بات کہ یہ ساری چیزیں انہوں نے کعبہ سے لئے ہیں اور دین کا حصہ بنا لئے ہیں.اللّٰہ ہدایت دے انہیں.
تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا
اہلِ بدعت تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا اسے بھی دین میں بدعت شمار کرتے ہیں.ان کا اعتراض ہے کہ تراویح کی نماز جماعت سے حضرت عمر رضی اللّٰہ نے شروع کروائی اس لئے یہ بدعت ہے.
تعجب ہوتی ہے کہ اہلِ بدعت حضرات کبھی قرآن اور حدیث پڑھے بھی ہے یا نہیں یا صرف اپنے بزرگوں کی جھوٹی قصے کہانیاں اور کرامات پڑھے ہیں.انکے پیر بزرگ اور علماء سبھی کا یہی حال ہے جو ایسے سوالات اور اعتراضات کرتے رہتے ہیں.ان بدعتی حضرات کو اپنی کم عقلی اور لا علمی پر رونا رونا چاہیے
یہ کہا جاتا ہے کہ عمر رضی اللّٰہ نے باجماعت پورا رمضان تراویح نماز شروع کی جب کہ عہد رسالت میں ایسا نہیں ہوا۔جواب یہ ہے کہ عمر ہی وہ ہستی ہیں جن کی رائے سامنے آئی تو اس رائے کے مطابق قرآن حکیم کی آیات نازل ہوگئیں۔ لہذا ان کا عمل قرآن وسنت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ عہدِ رسالت میں رسول اللّٰہ نے تین روز تراویح پڑھائی اور پھر روک دی تا کہ فرض نہ ہو جائے یا لوگ اسے فرض سمجھنا نہ شروع کر دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ کے بعد فرض ہونے کا خدشہ جاتا رہا۔ لہذا عمر علی نے لوگوں کو الگ الگ تراویح پڑھنے کے بجائے ایک جماعت بن کر پڑھنے پر اکٹھا کر دیا۔ تراویح کا ثبوت چونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت تھا اس لئے عمر نے تراویح کے لئے الگ الگ پڑھنے کی بجائے جماعت کی سہولت فراہم کی اس لئے یہ بدعت نہیں کہلائے گی.
آئیے اب دلیل کی روشنی میں کہ تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنّت نبوی ﷺ ہے بدعت نہیں ہے.
حضرت عمر بن خطاب کا رمضان میں لوگوں کو نماز کے لئے ایک امام کے پیچھے جمع کرنا *
میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور ( رات کا )وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ ( کی فضیلت ) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔(صحیح البخاری: 2010)
کیا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایسا کرنا بدعت یعنی بدعت حسنہ ہے۔ بالکل نہیں ! کیونکہ شریعت میں بدعت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اور اسکی دلیل بھی موجود ہے کہ نبی ﷺ نے جماعت سے تراویح کی نماز پڑھائی ہے اور اسی سنت کو عمر بن خطاب نے زندہ کیا.جب تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے کی دلیل پہلے سے دین میں موجود ہے تو پھر یہ بدعت کیسے ہوئی ؟
بخاری کی حدیث میں عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :
قَالَ عُمَرُ : نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ
یہ نیا طریقہ (بدعت) بہتر اور مناسب ہے۔ اس حدیث سے اہلِ بدعت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچھی بدعت (بدعت حسنہ ) بھی ہوتی ہے۔ تو یہاں دو باتیں سمجھ لیں ۔ بعض لوگ اپنی بدعت حسنہ کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں ۔ جب حضرت عمر نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھتے دیکھا تو کہا " نعم البدعة “ انہوں نے بدعت حسنہ تو نہیں کہا۔ بدعت حسنہ تو نہ قرآن سے ، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ ہی صحابہ کرام سے ثابت ہے ۔ کوئی ایک دلیل تو دکھائیے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ " نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ " ہے۔ کس کو کہا گیا ہے؟ یہ اس عمل کو کہا گیا ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ تراویح یعنی قیام اللیل کا حکم تو قرآن میں بھی ہے۔ اس کی فضیلت قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہے ۔ قیام اللیل کا عمل نبی کریم سے ثابت ہے اور سب صحابہ کرام کو جماعت کروانا بھی ثابت ہے ۔ آپ نے اپنی امت کی مشقت کی ڈر کی وجہ سے چھوڑا ۔ بعد میں اسی عمل پر صحابہ کرام جمع ہوئے تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ "
اور ان سب کی دلیل یہ ہیں۔ آپ رات کو ( نماز میں ) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر کے لئے ۔ {سورة المزمل }
رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ۔
(79 : سورہ بنی اسرائیل).یہ ہے قرآن کی دلیل
اب حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں
نبی کریم اور صحابہ کرام سے قیام اللیل کی دلیل: حميد بن عبد الرحمن نے حضرت ابو ہریرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے ایمان ( کی حالت میں ) اور اجر طلب کرتے ہوئے رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ۔(1779:مسلم)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دوں۔{ صحیح بخاری: 1135}
مہینے کے صرف تین دن باقی رہ کئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔
(سنن الترمزی : 806)
جس عمل پر عمر نے لوگوں کو اکٹھا ہونے پر کہا کہ " نعم البدعه هذه " وہ عمل تو قرآن، نبی کریم اور صحابہ سے ثابت ہے تو یہ بدعت کیسے ہو گئی؟
قَالَ عُمَرُ : نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ
یہ نیا طریقہ (بدعت) بہتر اور مناسب ہے۔ اس حدیث سے اہلِ بدعت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچھی بدعت (بدعت حسنہ ) بھی ہوتی ہے۔ تو یہاں دو باتیں سمجھ لیں ۔ بعض لوگ اپنی بدعت حسنہ کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں ۔ جب حضرت عمر نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھتے دیکھا تو کہا " نعم البدعة “ انہوں نے بدعت حسنہ تو نہیں کہا۔ بدعت حسنہ تو نہ قرآن سے ، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ ہی صحابہ کرام سے ثابت ہے ۔ کوئی ایک دلیل تو دکھائیے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ " نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ " ہے۔ کس کو کہا گیا ہے؟ یہ اس عمل کو کہا گیا ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ تراویح یعنی قیام اللیل کا حکم تو قرآن میں بھی ہے۔ اس کی فضیلت قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہے ۔ قیام اللیل کا عمل نبی کریم سے ثابت ہے اور سب صحابہ کرام کو جماعت کروانا بھی ثابت ہے ۔ آپ نے اپنی امت کی مشقت کی ڈر کی وجہ سے چھوڑا ۔ بعد میں اسی عمل پر صحابہ کرام جمع ہوئے تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ "
اور ان سب کی دلیل یہ ہیں۔ آپ رات کو ( نماز میں ) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر کے لئے ۔ {سورة المزمل }
رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ۔
(79 : سورہ بنی اسرائیل).یہ ہے قرآن کی دلیل
اب حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں
نبی کریم اور صحابہ کرام سے قیام اللیل کی دلیل: حميد بن عبد الرحمن نے حضرت ابو ہریرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے ایمان ( کی حالت میں ) اور اجر طلب کرتے ہوئے رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ۔(1779:مسلم)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دوں۔{ صحیح بخاری: 1135}
مہینے کے صرف تین دن باقی رہ کئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔
(سنن الترمزی : 806)
جس عمل پر عمر نے لوگوں کو اکٹھا ہونے پر کہا کہ " نعم البدعه هذه " وہ عمل تو قرآن، نبی کریم اور صحابہ سے ثابت ہے تو یہ بدعت کیسے ہو گئی؟
اور یہ جو آج کل بدعتیں ہو رہی ہیں جیسے جشن عید میلاد النبی منانا, قرآن خوانی کرنا, عرش میلہ, مزار چادر, میت کے لئےدسواں,بیسواں ,چالیسواں,سالگرہ, گیارہویں وغیرہ وغیرہ.کیا نبی کریم کو حکم ہوا؟ کیا اللہ نے حکم دیا؟۔ کیا قرآن اور حدیث میں اس کا وجود ہے؟۔ اگر یہ عمل نبی کریم نے کیا ہے تو پھر آپ بھی کر لو۔ اگر یہ نبی کریم نے نہیں کئے تو ایسی چیز جس کا وجود ہی نہیں ہے اس کو بدعت حسنہ کہنا اور دین کا حصہ سمجھنا بالکل نا سمجھی کی بات ہے
اور اس بدعتی عمل کو صحیح اور بدعت حسنہ ثابت کرنے کے لئے عمر کے اس قول "نعم البدع هذه " کو اپنی دلیل کی بنیاد بنانا جو خود اللہ کے کلام ، نبی کریم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے وہ بھلا بدعت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تو محبت نہیں بلکہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے بغض ہے جو سنت کو بدعت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.
اور اس بدعتی عمل کو صحیح اور بدعت حسنہ ثابت کرنے کے لئے عمر کے اس قول "نعم البدع هذه " کو اپنی دلیل کی بنیاد بنانا جو خود اللہ کے کلام ، نبی کریم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے وہ بھلا بدعت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تو محبت نہیں بلکہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے بغض ہے جو سنت کو بدعت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.
الله ہم سبھی کو ہدایت دے, صحیح دین کی سمجھ اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یارب العالمین
آمین یارب العالمین
Read This: Taweez aur gande ki haqeeqat
ایمان مفصّل اور ایمان مجمل پڑھانا
اہل بدعت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ ایمان مجمل اور ایمان مفصّل یہ بھی دین میں اضافہ بدعت ہے.تو آئیے جانیں کہ اصل میں ایمان مجمل اور ایمان مفصّل کیا ہے ؟
ایمان مجمل یا ایمان مفصل کے عنوان سے مروجہ کلمات کسی آیت یا حدیث میں اس طرح بیان نہیں ہوئے بلکہ آیات واحادیث سے اخذ کر کے بنائے گئے ہیں اور معنی ومفہوم کے اعتبار سے ان میں کوئی خرابی نہیں پائی جاتی۔
ایمان مجمل اور ایمان مفصل کیا ہے؟
ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے اور اس پر اُمّت کا اجماع ہے.
1. ايمانِ مُجْمَل
2. ايمانِ مُفَصَّل
اِیمانِ مجمل کیا ہے ؟
اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی ’’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں،ایمانِ مُجْمَل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
اِیمانِ مفصّل کیا ہے ؟
ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔
فرشتوں پر ایمان لانا۔
کتابوں پر ایمان لانا۔
رسولوں پر ایمان لانا۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا۔
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔
پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہیے کہ ہمارے ہاں رائج چھ کلمے، ایمانِ مجمل ایمانِ مفصل اس نام اور عنوان کے ساتھ بعینہ قرآنِ مجید یا احادیثِ مبارکہ میں یک جا طور پر نہیں ہیں، نہ ہی کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ کلمات اسی نام اور اسی ترتیب سے بعینہ قرآنِ مجید یا حدیث شریف میں وارد ہیں، البتہ ان کلموں کی عبارات مختلف نصوص میں موجود ہیں، بعض کلمات بعینہ موجود ہیں اور بعض متفرق طور پر موجود ہیں، نیز ان میں سے بعض کے فضائل بھی منقول ہیں۔
چھ کلمے مندرجہ ذیل ہیں.
اوّل کلمہ طیّب:
دوسراکلمہ شہادت
اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
تیسراکلمہ تمجید
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِ ﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ ط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ.
ایمان مجمل یا ایمان مفصل کے عنوان سے مروجہ کلمات کسی آیت یا حدیث میں اس طرح بیان نہیں ہوئے بلکہ آیات واحادیث سے اخذ کر کے بنائے گئے ہیں اور معنی ومفہوم کے اعتبار سے ان میں کوئی خرابی نہیں پائی جاتی۔
ایمان مجمل اور ایمان مفصل کیا ہے؟
ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے اور اس پر اُمّت کا اجماع ہے.
1. ايمانِ مُجْمَل
2. ايمانِ مُفَصَّل
اِیمانِ مجمل کیا ہے ؟
اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی ’’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں،ایمانِ مُجْمَل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
اِیمانِ مفصّل کیا ہے ؟
ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔
فرشتوں پر ایمان لانا۔
کتابوں پر ایمان لانا۔
رسولوں پر ایمان لانا۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا۔
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔
پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہیے کہ ہمارے ہاں رائج چھ کلمے، ایمانِ مجمل ایمانِ مفصل اس نام اور عنوان کے ساتھ بعینہ قرآنِ مجید یا احادیثِ مبارکہ میں یک جا طور پر نہیں ہیں، نہ ہی کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ کلمات اسی نام اور اسی ترتیب سے بعینہ قرآنِ مجید یا حدیث شریف میں وارد ہیں، البتہ ان کلموں کی عبارات مختلف نصوص میں موجود ہیں، بعض کلمات بعینہ موجود ہیں اور بعض متفرق طور پر موجود ہیں، نیز ان میں سے بعض کے فضائل بھی منقول ہیں۔
چھ کلمے مندرجہ ذیل ہیں.
اوّل کلمہ طیّب:
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ
’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘دوسراکلمہ شہادت
اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
تیسراکلمہ تمجید
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِ ﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ ط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ.
’’اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کی توفیق نہیں مگر اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘
چوتھاکلمہ توحید
لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ط ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط بِيَدِهِ الْخَيْرُ ط وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْر.
’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتاہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، بڑے جلال اور بزرگی والا ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
پانچواں کلمہ اِستغفار
اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.
’’میں اپنے پروردگار اللہ سے معافی مانگتا ہوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ہوکر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ہوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا۔(اے اللہ!) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا، عیبوں کا چھپانے والا اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگرا للہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘
چھٹا کلمہ ردِّ کفر
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی شے کو جان بوجھ کر تیرا شریک بناؤں اور بخشش مانگتا ہوں تجھ سے اس (شرک) کی جسے میں نہیں جانتا اور میں نے اس سے (یعنی ہر طرح کے کفر و شرک سے) توبہ کی اور بیزار ہوا کفر، شرک، جھوٹ، غیبت، بدعت اور چغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور بہتان باندھنے سے اور تمام گناہوں سے۔ اور میں اسلام لایا۔ اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہی‘‘
لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ط ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط بِيَدِهِ الْخَيْرُ ط وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْر.
’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتاہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، بڑے جلال اور بزرگی والا ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
پانچواں کلمہ اِستغفار
اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.
’’میں اپنے پروردگار اللہ سے معافی مانگتا ہوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ہوکر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ہوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا۔(اے اللہ!) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا، عیبوں کا چھپانے والا اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگرا للہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘
چھٹا کلمہ ردِّ کفر
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی شے کو جان بوجھ کر تیرا شریک بناؤں اور بخشش مانگتا ہوں تجھ سے اس (شرک) کی جسے میں نہیں جانتا اور میں نے اس سے (یعنی ہر طرح کے کفر و شرک سے) توبہ کی اور بیزار ہوا کفر، شرک، جھوٹ، غیبت، بدعت اور چغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور بہتان باندھنے سے اور تمام گناہوں سے۔ اور میں اسلام لایا۔ اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہی‘‘
اوپر جو کلمات ہیں ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل سے متعلق بھلے ہی یہ سب یکجا اور مکمّل طور پر قرآن اور حدیث میں نہ ہوں لیکن تھوڑے تھوڑے کرکے یہ کلمات قرآن اور حدیث میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں.بس ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ کر دیا ہے تاکہ ہمارا ایمان اور مضبوط ہو جائے اور آسانی سے ایمان کو سمجھ سکیں.
اہلِ بدعت حضرات سے اب یہ پوچھنا ہے کہ اب آپ بتائیں کہ ایمان مجمل اور ایمانِ مفصل کیا یہ بدعت ہیں.
یہ بدعت اُس وقت ہوتے اگر یہ کلمات خود سے اضافہ کئے ہوتے لیکن یہ کلمات تو قرآن اور حدیث میں تھوڑے تھوڑے کرکے کہیں نہ کہیں موجود ہیں تو یہ بدعت کیسے ہوا.
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
Conclusion :
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat کا آخری حصہ بھی آپ نے ملاحظہ فرما لیا. اب یہ صاف طور پر ظاہر ہو گیا کہ اُن کے سارے اعتراضات اور سوالات ہے بنیاد ہیں.اہلِ بدعت حضرات یا ایسے اعتراضات کرنے والوں کو اپنے ایمان کا محاسبہ کرنا چاہیے. یہ اپنے پیر بزرگوں اور اماموں کی اندھی تقلید میں اللّٰہ ,اللّٰہ کے رسُول ﷺ اور صحابہء کرام پر بھی انگلی اٹھا دیئے ہیں.اب شاید یہ سب سمجھ گئے ہوں گے کہ دین میں بدعت کیا ہے یہ کیسے کہا گیا ہے.جس عمل کی اصل یا جڑ دین میں موجود ہے وہ کبھی بدعت ہو ہی نہیں سکتی.اللّٰہ سے دعا ہے کہ ہم سبھی کو ہدایت دے اور صحیح دین سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یا رب العالمین
FAQs:
Que: کیا جمعہ کی تیسری اذان بدعت ہے ؟
Ans: جی نہیں ! کیونکہ تیسری اذان کا اضافہ لوگوں کی سہولت کے لئے کیا گیا تاکہ لوگ جمعہ کی تیاری کر سکے.اور اذان تو شریعت میں پہلے سے ہی موجود ہے تو یہ بدعت یا دین میں اضافہ کیسے ہوا ؟ اگر اذان کا وجود ہی نہ ہوتا تو یہ بدعت میں شمار ہوتا.
Que: کیا فجر کی اذان میں اضافہ ہوا ہے ؟
Ans: نہیں فجر کی اذان میں کسی بھی طرح کی کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے. بلکہ فجر کی اذان میں اہلِ بدعت حضرات جسے بدعت بولتے ہیں یعنی الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ یہ کلمہ تو نبی ﷺ کے فرامین سے ثابت ہے.
Que: کیا کعبہ پر غلاف چڑھانا بعد کی ایجاد ہے ؟
Ans: جی نہیں ! بُخاری کی یہ حدیث میں اس کا جواب ہے کہ یہ بدعت یا بعد کی ایجاد نہیں ہے.
فتح مکّہ کے موقع پر رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ
بلکہ یہ تو وہ دن ہے جس دین میں اللّٰہ تعالیٰ نے کعبہ کو عظمت عطا فرمائی اور جس دن کعبہ کو لباس پہنایا جاتا ہے. (صحیح البخاری:4280)
Que: کیا تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا بدعت ہے ؟
Ans:
Que: ایمانِ مفصل کیا ہے ؟
Ans: ایمانِ مفصل یہ ہے.
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
Que: ایمانِ مجمل کیا ہے ؟
Ans: ایمانِ مُجْمَل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.thanks