Breaking Tickers

Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1,2 & 3

Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat part :1/اہلِ بدعت کے سوالات اور اعتراضات

Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1


اکثر Social media پر بدعت سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات اور اعتراضات  گھومتے رہتے ہیں. آج انکے پوچھے جانے والے انہی سوالات کے جوابات Ahle Bid'at Ke Sawalat Aur Aitrazat part:1 میں دیا جائے گا انشاء اللہ.جیسے
1* دین میں بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت
2* قرآن کو کتابی شکل دینا
3* قرآن کو جمع کرنا:-
4* قرآن پر اعراب لگانا:-
5* حدیثوں کو لکھنا یا کتابی شکل دینا
6* فجر کی اذان یا جمعہ میں تیسری اذان کا اضافہ:-
7* کعبہ پر غلاف چڑھانا
8* مسجد کی مینار بنانا, مائک میں اذان دینا یا مائک میں نماز پڑھانا
9* مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجّد کی اذان
10* ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں
11* تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا
12* حج کے لئے ہوائی جہاز سے جانا 
13*  کعبہ کی چادر میں اربوں کی کشیدہ کاری کرنا
14* ایمان مفصّل اور ایمان مجمل پڑھانا 

     

    یہ ہیں Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat  کہ یہ ساری چیزیں نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نہیں تھے بعد کے ایجاد ہیں اس لئے یہ سب بدعت ہیں.افسوس ! کہ یہ اعتراضات کرنے والے یا انکے پیر بزرگ اگر دین کا صحیح علم حاصل کئے ہوتے یا قرآن و احادیث کا مطالعہ کئے ہوتے تو کبھی بھی ایسے اعتراضات نہیں کرتے. اور انہونے جو ساری بدعتیں دین اور عشقِ رسول کے نام پر ایجاد کی ہیں وہ انکے نزدیک سب صحیح ہیں اور سنت ہیں.
    خیر ان سوالوں کا جواب پیش کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دین میں اصل میں بدعت کسے کہا گیا ہے.؟

    دین میں بدعت ، اچھا طریقہ (سنت) اور برا طریقہ

    اللّٰہ سُبحان و تعالیٰ کا قرآن الکریم میں فرمان ہے کہ:

    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1
    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1


    اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
    آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔(سورہ المائدة: 3)
    اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ
    اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو ۔ یقینا اللہ تعالی سننے والا ، جاننے والا ہے ۔ {سورہ الحجرات: 1}
    اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو(سورہ محمد : 33)
    جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ( خلیفہ بن کر ) کھڑے ہوئے ( بحیثیت خلیفہ خطبہ دیا ) تو انھوں نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لئے جو چیز جس ذریعے سے چاہتا حلال کر دیتا تھا اور بلاشبہ قرآن نے جہاں جہاں ( جس جس معاملے میں ) اترنا تھا ، اتر چکا .(صحیح مسلم: 2947)
    Note: دین نبی کریم ﷺ اور صحابہء کرام کے زمانے میں مکمّل ہو چکا ہے. اب سوچنے والی بات ہے کہ جو چیز کامل ہے بھلا اس میں کسی اضافے کی کیا ضرورت.جو نا مکمّل ہو اُسے مکمّل کیا جاتا ہے نہ کے مکمّل کو مکمّل کرنا. اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خطبہ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں اور جس جس معاملے میں جو ضرورت تھی اس ضرورت کے حساب سے اللہ تعالیٰ قرآن اور اپنے فرمان کو اتار چکا ہے یعنی دین بلکل مکمل ہے تو پھر اس میں کسی اضافے کی سوچنا تو سراسر بیوقوفی یا جہالت ہے. اپنے ایمان کی سوچیں۔

    صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ:
    قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَرَةٌ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔ متفق علیہ (صحیح بخاری :2697 )

    یعنی کسی نے دین میں ایسی چیز داخل کی جس کی اصل دین میں موجود نہ تھی پھر وہ رد ہے اور جس کی اصل دین میں پہلے سے موجود ہو وہ مردود نہیں ہوگی۔ جس کی سب سے بڑی مثال تراویح کی جماعت ہے۔ اگر چہ آپ ﷺ  نے تین دن پڑھی تو اسکی اصل تو دین میں موجود تھی ۔ سیدنا عمر نے اسکو دوبارہ جاری کیا اور فرمایا "نعم البدعته هذه“ یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔
    اور جس نے ایسی چیز داخل کی جس کی اصل دین میں موجود نہ ہو وہ مردود ہے جیسے کہ عید میلاد، کسی کے مرنے کے بعد تیجے، دسواں ، بیسواں، چالیسواں برسی وغیرہ کرنا۔ انکا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ یہ دین میں بدعت ہے سنن نسائی اور مسلم میں نبی کریم ﷺ  کا فرمان ہے کہ :
    سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بد ترین کام نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے.(1579/2005)
    یعنی دین میں بدعت کی کوئی گنجائش نہیں! 

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    اور ابو داود 4607، ترمزی 2676 ، ابن ماجہ 42 میں نبی کریم ﷺ  کا فرمان ہے کہ:
    جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے"
    بدعت کتنی بری ہے اس کا اندازہ صحیح بخاری کی ان ( 6585،6576) حدیث سے لگایا جا سکتا ہے۔ جسکی وجہ سے کچھ صحابہ کو بھی حوض کوثر پر روک دیا جائے گا
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی۔ پھر وہ حوض سے دور کر دیئے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں؟ یہ لوگ ( دین سے الٹے قدموں واپس لوٹ کئے تھے۔“

    یعنی اوپر دیئے گئے حوالوں سے بدعت کی تعریف یہ ہے کہ :

    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1
    Bidat Kya hai 


    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد دین کے اصل کے اندر جو دین کی جڑ ہے اس میں کسی چیز کو داخل کرنا خواہ وہ عقیدہ ہو ، خواہ وہ نظریہ ہو یا کوئی عمل ہو، جائز سمجھ کر ہو، ثواب سمجھ کر ہو یا بغیر ثواب سمجھ کر ہو دین میں داخل کرنا بدعت ہے۔ حالانکہ یہ ممکن ہو کہ نبی کریم ﷺ اپنے مبارک زمانے میں اسکو جاری کر سکتے تھے اور آپ نے نہیں کیا۔
    Read this: Shirk Kya hai ?

    خلفہ راشدین کے زمانے میں جو کام ہوئے کوئی انکا ایک عمل بتائے جو اصل دین سے ہٹ کر انہوں نے کیا ہو۔ اگر وہ بھی کرتے تو بدعت میں شامل ہوتا۔ لیکن ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔
    کیونکہ اللہ تعالی نے اسکی ضمانت دی تھی اسی لئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے اعتماد سے کہا کہ " تم میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا "
    صحابہ کرام کو دین کی سمجھ اور علم ہم سے زیادہ تھی۔
    تو جب انکا عمل دین سے ہٹ کر نہیں تو ہمارا عمل دین سے ہٹ کر کیوں ہے؟

    Telegram Group Join Now


    " سُنَةً حَسَنَةٌ " و " سُنَةٌ سَيِّئَةٌ "( اچّھا طریقہ اور برا طریقہ)

    اہلِ بدعت حضرات حدیث کے الفاظ اور معنی مطلب کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ اُن کی ایجاد کردہ بدعت صحیح ثابت ہو جائے.

    صحیح مسلم کی حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لئے اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر ہے اور جس نے برا طریقہ رائج کیا اس کا بوجھ اور جو عمل کریں گے انکا بھی بوجھ اس پر ہو گا بغیر انکے بوجھ میں کوئی کمی کے۔
    دھیان دیں:  صحیح مسلم کی اس حدیث سے اچھی بدعت اور بری بدعت کی دلیل دی جاتی ہے۔ در اصل یہ انکی کم علمی کہہ لی جائے یا اللّٰہ اور اس کے رسول سے بغاوت جو اپنے بدعتی عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں! سُنَةً حَسَنَةً اور سُنَةٌ سَيِّئَةً ہے اچھی بدعت اور بری بدعت نہیں بلکہ اچھا طریقہ اور برا طریقہ ہے، اور وہ اچھا یا برا طریقہ کیا ہے خود نبی کریم ﷺ  نے بتا دیئے ہیں.
    پوری حدیث پیش خدمت ہے
    رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے ، انھوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ آپ نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ ضرورت مند اور محتاج ہو گئے تھے تو آپ نے لوگوں کو ( ان کے لیے ) صدقہ کرنے کی ترغیب دی لیکن لوگوں نے اس میں سستی سے کام لیا ، حتی کہ یہ بات آپ ﷺ کے چہرہ انور سے ظاہر ہونے لگی ۔
    پھر انصار میں سے ایک شخص چاندی ( کے سکوں / درہموں ) کی ایک تھیلی لے کر آ گیا ، پھر دوسرا آیا ، پھر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے ( صدقات لے کر ) آنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ انور پر مسرت جھلکنے لگی ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے اسلام میں کسی اچھے طریقے یعنی اچھا کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا ، اس کے لیے ( ہر ) عمل کرنے والے ( کے اجر ) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا ۔ اور ان ( بعد میں عمل کرنے والوں ) کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقے یعنی برا کام کا آغاز کیا تو اس کے بعد اس پر عمل ہوا تو اس پر اس ( برے کام ) پر عمل کرنے والوں جتنا گناہ لکھا جاتا رہے گا اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی ۔‘‘ 
    (صحیح مسلم:6800/2351/1017)
    اب تو سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ دین میں اچھا یا برا طریقہ سے متعلق بتایا گیا ہے بدعت حسنہ سے متعلق نہیں.
    کیونکہ بدعت تو ہوتی ہی بری ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے۔
    كُلِّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ .
    دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے“ 
    یہاں غور و فکر کرنے والی بات ہے کہ یہاں نبی ﷺ  نے ہر بدعت گمراہی کہی ہے.یہ نہیں کہے ہیں کہ کوئی بدعت اچھی ہے تو کوئی بدعت بری اور کوئی گمراہی بلکہ ہر بدعت ہی گمراہی ہے.
    بخاری اور مسلم میں حدیث ہے جو نبی ﷺ اپنے ہر جمعہ کے خطبہ میں بیان کیا کرتے تھے اور آج بھی جمعہ کے خطبہ میں مسجدوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ سب سے بہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ اور بد ترین کام وہ ہے جو خود سے دین میں داخل کر دیا جائے۔ اور جو دین میں داخل ہو جائے وہ مردود ہے۔

    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1
    Har bidat gumrahi hai


    اسلام میں اچھے طریقے سے مراد:

    اسلام میں اچھے طریقے سے مُراد جس میں کوئی بھی عمل ہو اُس کی جڑ  دین میں پہلے سے موجود ہو یعنی اصل دین اپنی جگہ پر رہے اُس عمل میں کوئی تبدیلی یا اضافہ نہ ہو. ہاں اگر اُسی عمل یا دین کو بغیر تبدیلی کے کسی نئے طریقے سے پیش کر دیا جائے تو یہ اچھا طریقہ یعنی  سُنَةً حَسَنَةٌ " ہوگا. اسلام میں یہ طریقے بدعت نہیں مثلاً مسجد پکّی بنانا,مسجد میں مینار گنبد بنانا , لاؤڈ اسپیکر میں اذان دینا یا نماز پڑھانا, مسجد میں قالین بچھانا ، ایئر کنڈیشن لگانا، پنکھا لائٹ، لاؤڈ اسپیکر وغیرہ لگانا یہ اسلام میں اچھا طریقہ ہے بدعت حسنہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اس سے نماز پڑھنے یا پڑھانے میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوئی ہے نماز اپنی اصل میں موجود ہے۔ کوئی بھی نمازی اتنا ہی رکعت اور اسی طریقے سے پڑھتا ہے جتنا رکعت اور جیسے بتایا گیا ہے۔ ان سب چیزوں کی اضافہ سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ ہم سکون سے نماز پڑھتے اور ذِکر او ازکار کرتے ہیں

    اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی نماز کی نیت کرے تو یہ کہے کہ میں نے نیت کی 4 رکعت فرض نماز عصر کی اوپر پنکھے اور لائٹ کے، دائیں بائیں طرف ایئر کنڈیشن کے، نیچے اس قالین کے، پیچھے اس امام کے۔ نہیں کوئی بھی ایسی نیت نہیں کرے گا۔ وہ ایسے ہی نیت کرے گا جیسے ان سب چیزوں کے نہ ہونے سے پہلے کرتا تھا۔ انکے ایجاد سے نماز کی نیت اور نماز پڑھنے کے طریقے میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ نماز تو اپنی اصل جگہ پر موجود ہے تو یہ بدعت کیسے؟
    نبی کریم ﷺ  نے اپنے وقت میں اونٹ پر حج کیا اور ہم جہاز پر حج کے لئے جاتے ہیں۔ تو کیا جہاز سے حج کرنے کے لئے جانے سے حج کے ارکان میں کچھ تبدیلی ہو گئی ہے
    بالکل نہیں! حج اپنی جگہ موجود ہے بس وہاں جانے کا طریقہ بدل گیا۔ حج میں حاجیوں کے آنے جانے میں آسانیاں ہو گئی. حج کرنے کے جو طریقے کتاب و سنت سے ثابت ہیں اُس میں تو کوئی تبدیلی یا اضافہ نہیں ہوا. حج یا عمرہ کرنے کا طریقہ آج بھی وہی ہے جو نبی کریم ﷺ کے دورِ حیات میں تھا.

    دین میں یہ بھی اچھے طریقے ہیں جسے لوگ بدعت کا نام دیتے ہیں تاکہ ان کا بدعتی عمل صحیح ثابت ہو جائے ۔ جیسے قرآن و حدیث کو کتابی شکل دینا۔ سوفٹویئر کے ذریعہ موبائل فونز میں قرآن اور حدیث کو اپپ کی شکل میں استعمال کرنا۔ اس کے ذریعہ تو عوام الناس کو قرآن پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو گئی اب جب جی چاہے اور جہاں بھی رہے آسانی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے ہیں.قرآن اور حدیث وہی ہیں اصل چیز اپنی جگہ موجود ہے۔ ان میں ان طریقوں کی وجہ سے نہ کچھ کمی ہوئی ہے اور نہ اضافہ ۔ کوئی نیا قرآن تو نہیں بنا۔ جب اصل اپنی جگہ سے نہ ہلتی ہو تو وہ اسلام میں اچھا طریقہ ہے۔ بدعت حسنہ نہیں۔ آج بھی قرآن و حدیث اپنی اصل حالت میں موجود ہیں کچھ بھی فرق نہیں پڑا ہے۔ باقی آپ کوئی چیز دین میں داخل کریں گے وہ بدعت ہی ہوگی۔ وہ اچھے طریقے نہیں ہونگے

    اچھا طریقہ بس یہی ہے کہ دین اپنی جگہ پہ موجود ہو اور آپ اُس کو کسی جدید شکل میں پیش کر دیں اُسی دین کو۔ اگر اپنی طرف سے دین کے نام پر کچھ نئی چیز پیش کرتے ہیں جو دین کا حصہ ہی نہیں ہے یا جو دین میں پہلے سے موجود ہی نہ ہو تو وہ برا طریقہ ہو گا بدعت ہوگا دین میں۔

    Read this: Waseela Kya hai ?

    نبی کریم ﷺ  کا دین کے معاملے میں بلکل حساس ہونا کے دین میں کسی بھی بدعتی عمل یا شرکیہ کلام کا اضافہ ہو.


    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1
    Nabi kareem  ki waseeyat


     پہلے یہ حدیث پڑھیں ,آپ ﷺ  نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ ( امت کے اندر ) بہت سارے اختلافات دیکھے گا تو تم ( باقی رہنے والوں ) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیئے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے“۔

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
    ابن عمر رضی الله عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: کہنے کو تو میں بھی «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» کہہ سکتا ہوں لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم «الحمد لله على كل حال» ہر حال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کہیں.( سنن ترمذی:2738)
     
    Note: اوپر حدیث میں الحمدللہ کے بعد صرف والسلام علی رسول اللہ کا اضافہ کیا گیا یعنی "سلام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر" اس جملے میں کیا خرابی ہے کُچّھ نہیں پھر بھی اس اضافے کو روک دیا گیا. کیونکہ یہ دین میں بدعت شمار ہوگا۔

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    مجاہد سے روایت ہے ، کہا : میں اور عروہ بن زبیر مسجد میں داخل ہوئے ، دیکھا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے ( کی دیوار ) سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھنے میں مصروف تھے ۔ ہم نے ان سے لوگوں کی ( اس ) نماز کے بارے میں سوال کیا ، انھوں نے فرمایا کہ بدعت ہے ۔
    (مسلم 3037/1255)

    Note: آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ چاشت کی نماز جو اکیلے اکیلے ، فرداً فرداً پڑھی جاتی ہے اس کو اجتماعی طور سے باجماعت پڑھنا بدعت ہے نہ کہ اصل چاشت کی نماز بدعت ہے ، کیونکہ چاشت کی نماز تو احادیث سے ثابت ہے۔ (شرح النووی: ۱/۴۰۹)

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے خطبہ دیا اور ( اس میں ) کہا : جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے رشد و ہدایت پا لی اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے وہ بھٹک گیا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تو برا خطیب ہے ، ( فقرے کے پہلے حصے کی طرح ) یوں کہو ، جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ( وہ گمراہ ہوا ۔ ) ‘(صحیح مسلم:2010/870)

    Noteان جملوں میں کیا خرابی ہے (جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کی) اور (جوان دونوں کی نا فرمانی کی ) ۔ کوئی خرابی نہیں لیکن دوسرے جملے کی وجہ سے نبی ﷺ  غصہ ہو کر کہا کہ تو ایک برا خطیب ہے چونکہ صحابی کے ایسا بولنے کی وجہ سے اللہ اور رسول دونوں ایک برابر ہو گئے حالانکہ صحابی کے دل و دماغ میں ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی

    اور نبی ﷺ  کسی قدر غصہ ہوئے اس حدیث سے صاف پتا چلتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : " چل کھڑا ہو ۔ " یا فرمایا " چلا جا تو بہت برا خطیب ہے ۔ “(4981 :ابوداؤد)
    اُس وقت صحابی نے یہ نہیں کہا کہ نہیں میں آپ میں ان کو اللہ کے برابر نہیں سمجھتا یا یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کو بس اتنا سمجھتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو عطا کیا ہے یہ اللہ کی عطائی ہے


    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    سید نا عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا : جو کچھ اللہ چاہے اور آپ چاہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کر دیا ہے ، صرف ( وہ ہوتا ہے ) جو یکتا ویگا نہ اللہ چاہتا ہے ۔(مسند احمد #10)

    Note: اگر اللہ چاہے اور رسول چاہے ایسا کرنا صحیح ہوتا تو نبی کریم کہ یہ ہرگز نہ کہتے کے یہ کہہ کہ جو یکتا ویگا نہ اللہ چاہتا ہے۔ یہ ہے ہمارے ہمارے نبی کریم ﷺ  کی صیح تعلیم جو دین میں کسی بھی طرح کے اضافہ اور الفاظ میں بھی صحابہ کو شرک اور بدعت سے بچا رہے ہیں اور آج کے اہلِ بدعت دین میں کیا کیا اضافہ کرکے بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے.


    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    جناب مجاہد کہتے ہیں کہ میں ( ایک بار ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب کی ( یعنی اذان کے بعد دوبارہ اعلان کیا ) تو انہوں نے فرمایا : مجھے یہاں سے لے چلو ، بیشک یہ بدعت ہے ۔  (سنن ابی داؤد: 538)


    ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: فلاں شخص نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، اس سے ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اگر اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے تو اسے میرا سلام نہ پہنچانا، (ترمذی :2152)
    Note: اب یہاں اس حدیث پر غور کریں کہ ابن عمر رضی الله نے اس شخص کو سلام کرنے سے منع فرما دیا جس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا تو تو بدعتی حضرات خود کی خبر لیں کہ انہوں نے کیا کیا بدعتیں اور عقیدے دین میں ایجاد کی ہیں۔
    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1
    Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1



    ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابو عبدالرحمن! میں نے ابھی مسجد میں ایسا معاملہ دیکھا ہے جو میری نظر میں عجیب ہے، الحمدللہ! میں نے نیکی کا کام ہی دیکھا ہے، انہوں نے کہا: وہ کیا کام ہے؟ ابو موسیٰ‌رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ زندہ رہے تو جلدہی دیکھ لیں گے۔ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ بنائے بیٹھے دیکھا، جو نماز کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہر حلقے میں ایک آدمی ہے اور سب لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں وہ آدمی کہتا ہے: سو مرتبہ اللہ اکبر کہو، وہ لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر کہتےہیں، وہ کہتا ہے: سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: سو مرتبہ سبحان اللہ کہو، وہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ان سے کیا کہا؟ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں ان سے کچھ بھی نہ کہا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں، اور تم نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی؟ پھر وہ چلے تو ہم بھی ان کے ساتھ چلے وہ ایک حلقے کے پاس پہنچے اور ان کے سروں پر کھڑے ہو گئے، کہنے لگے: یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: ابو عبدالرحمن! یہ کنکریاں ہیں، ہم ان کے ساتھ تکبیر تہلیل اور تسبیح کررہے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود‌رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنے گناہ شمار کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔افسوس! اےامت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کتنی جلدی ہلاکت میں پڑ گئے۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار صحابہ موجود ہیں، یہ آپ کے کپڑے ہیں جو بوسیدہ نہیں ہوئے، یہ آپ کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ایسی ملت پر ہو جو ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو؟ انہوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! واللہ! ہم نے تو نیکی کا ارادہ کیا تھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کتنے ہی بھلائی کا ارادہ کرنے والے بھلائی تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔
    (السلسلۃ الصحیحہ:3420)

    Note: اوپر حدیث میں جو کلمات بیان کئے گئے ہیں وہ سارے کلمات صحیح حدیث اور سنت سے ثابت شدہ ہے اور جب ابو موسیٰ رضی اللّٰہ نے دیکھا تو کیا کہا کہ میں نے نیکی کا کام ہی دیکھا ہے پھر بھی ان کلمات کے ذِکر سے روکا گیا اور اس عمل کو گناہ میں شمار کیا گیا. سوچنے والی بات ہے کہ ایک صحابی کے نظر میں دکھنے والا  نیکی کا عمل قابلِ قبول نہیں جبکہ شریعت میں تو ذِکر و ازکار کی بہت بڑی فضیلت بتائی گئی ہے لیکن پھر بهی اس عمل سے روکا گیا کیونکہ اُن کا ذکر کرنے کا طریقہ دین سے ہٹ کر اور الگ تھا جو اصل میں دین میں بدعت اور اضافہ تھا. اب آپ خود اپنے اعمال دیکھیں کہ آپ نے دین کے نام پر کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں اور ان کا انجام کیا ہوگا.

    بدعتیوں سے صحابہ کرام کی نفرت 

    صحابہ کرام کتاب و سنت پر عمل کے حریص تھے ۔ بدعت واہل بدعت سے انتہائی بغض و نفرت رکھتے تھے ۔
     چنانچہ ابوبکر صدیق نےایک خطبہ میں فرمایا : ” میں صرف متبع ہوں بدعتی نہیں ہوں ۔“
    عبد اللہ بن مسعود  نے فرمایا : ”تم اتباع کرو ، بدعت کا کام
    مت کرو، تمھارے لئے اتباع ہی کافی ہے۔“
    عبد اللہ بن عباس  نے فرمایا : ”اللہ کا تقوی اور استقامت
    لازم پکڑو ۔ اتباع کرو، بدعت کا کام مت کرو ۔
    مذکورہ تمام روایات سنن دارمی سے منقول ہیں ۔ )
    حذیفہ بن یمان  نے فرمایا: جو عبادت صحابہ کرام نے نہیں
    کی اسے تم مت کرو ، پہلے لوگوں نے بعد والوں کے لئے نئی بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی ہے ۔ (ابو داود )

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

     Continues to part: 2 & part: 3

    Part 2 اور part 3 میں باقی سبھی سوالات اور اعتراضات کے جوابات پائیں.

    Conclusion:

    تو آپ نے  Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat part:1 دیکھا اور پڑھا.اب یہ بات صاف طور پر واضح ہو گئی کہ دین میں اچھے طریقے کی گنجائش ہے لیکن بدعت یعنی بدعت حسنہ کی دین میں کوئی وجود نہیں ہے. خدارا ! فضول کی اعتراضات اور سوالات کرنا چھوڑ دیں کہ قرآن کو کتابی شکل دینا, قرآن پر اعراب لگانا, حدیثوں کو کتابی شکل دینا,تراویح ,اذان میں اضافہ, مسجد ,مینار ,مائک وغیرہ وغیرہ یہ سب بدعت ہیں دین میں اضافہ ہے. صحیح دین اور راہِ حق کو پہچانیں, گمراہ کرنے والوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور اللّٰہ اور اُس کے رسول ﷺ  کی اطاعت پر آ جائیں. اللّٰہ ہم سب کو صحیح دین سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین یارب العالمین.
                  👍🏽         ✍🏻            📩         📤          🔔
              Like comment save    share  subscribe 



    FAQs:

    Que: بدعت کیا ہے ؟
    Ans: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد دین کے اصل کے اندر جو دین کی جڑ ہے اس میں کسی چیز کو داخل کرنا خواہ وہ عقیدہ ہو ، خواہ وہ نظریہ ہو یا کوئی عمل ہو، جائز سمجھ کر ہو، ثواب سمجھ کر ہو یا بغیر ثواب سمجھ کر ہو دین میں داخل کرنا بدعت ہے

    Que: کیا قرآن کو کتابی شکل دینا بدعت ہے ؟
    Ans: نہیں بلکل نہیں ! کیونکہ قرآن کتابی شکل میں ہونے کے باوجود بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے.اور سب سے بڑی بات کہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمےداری خود اللّٰہ تعالیٰ نے لی ہے تو اس میں اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں.

    Que: کیا قرآن پر اعراب لگانا بعد کی ایجاد یا بدعت ہے ؟
    Ans: قرآن پر اعراب شروع سے ہی موجود ہے بس بعد میں قرآن پڑھنے والوں کے لئے جب مشکلیں آ پڑی تو اعراب کو ظاہر کر دیا گیا تاکہ پڑھنے والے صحیح الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ قرآن پڑھ سکیں.تو یہ بدعت کیسے ہو گئی.

    Que: اسلام میں اچھے طریقے سے کیا مراد ہے ؟
    Ans: اسلام میں اچھے طریقے سے مُراد جس میں کوئی بھی عمل ہو اُس کی جڑ دین میں پہلے سے موجود ہو یعنی اصل دین اپنی جگہ پر رہے اُس عمل میں کوئی تبدیلی یہ اضافہ نہ ہو. کسی عمل یا دین کو بغیر تبدیلی کے کسی نئے طریقے سے پیش کر دیا جائے تو یہ اچھا طریقہ یعنی سُنَةً حَسَنَةٌ " ہوگا جیسے قرآن و حدیث کو کتابی شکل دینا. یہ کتابی شکل دینے کے بعد بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں.

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    Post a Comment

    0 Comments