Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat part:2/اہلِ بدعت کے سوالات اور اعتراضات
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:2 |
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:1 میں آپ نے جانا اور پڑھا کہ دین میں بدعت کیا ہے. دین میں اچھی بدعت اور بری بدعت یا بدعت حسنہ کی کوئی جگہ نہیں بلکہ اچھا طریقہ اور برا طریقہ کا ذکر احادیث میں ہے. جیسے قرآن کو کتابی شکل دینا, اذان میں اضافہ, تراویح جماعت سے پڑھنا, مسجد مینار بنانا وغیرہ وغیرہ یہ اچھے طریقوں میں سامل ہیں جبکہ ان کو یہ اہلِ بدعت دین میں بدعت شمار کرتے ہیں. اور صحابہ پر بدعتی ہونے کہا الزام لگاتے ہیں. آج Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:2 میں انہیں سوالوں کا جواب دیا جائے گا ان شاء اللہ.
Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat Part:2 میں کچھ سوالوں کا جواب ملاحظہ فرمائیں اور باقی سوالات یا اعتراضات کا جواب part:3 میں دیا جائے گا اِن شاء اللہ .تو آئیے سوالوں کی طرف اور کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں.
قرآن کو کتابی شکل دینا
اہلِ بدعت کا یہ اعتراض ہے کہ قرآن مجید(جس کی حفاظت کی ذمےداری خود اللّٰہ نے لی ہے) کو کتابی شکل دینا بدعت ہے . اور ایسا کہنے کہا انکا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اُنکے تمام ایجاد کی ہوئی بدعتیں سنت ثابت ہو جائے. جو کہ ایک ناکام کوشش ہے.
سورہ الحجر آیت 9 میں اللّٰہ سُبحان و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ یہ ذِکر( یعنی قرآن) ہم نے ہی اُتارا ہے, اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں.
بدعتیوں کی جرات اور دلیری دیکھئے کہ سیدھا اللہ پر الزام کہ وہ اس کتاب کی حفاظت نہیں کر سکا (العیاذ باللہ) تبھی تو اسے کتابی شکل میں تبدیل کیا گیا یا اعراب ( زبر,زیر, پیش وغیرہ ) لگائے گئے یا 30 پاروں میں بانٹا گیا .غور کرنے والی بات ہے کہ جس قرآن کی حفاظت کی ذمےداری خود اللّٰہ نے لی ہے بھلا اس میں تبدیلی ممکن ہے.
اب آئیے دلیل کی طرف کہ قرآن کو کتابی شکل دینا
ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طرح ”لکھ کر“ ہوئی ہے، اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی، اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئیں، قرآن مجید کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے، ارشاد فرمایا:
میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔(صحیح مسلم)
Read This: Ahle Bidat Ke Sawalat Aur Aitrazat part:1
کاتب وحی سیدنازیدؓ فرماتے ہیں:
خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو ایسا کرنا میرے لئے آسان ہوتا۔ میں نے عرض کی:آپ وہ کام کیسے کرسکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا:خدا کی قسم! ایسا کرنا ہی بہتر ہے۔اس کے بعد خلیفہ محترم بار بار مجھے یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس رائے پر کھول دیا جو حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کی تھی۔ چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا او رکھجور کی شاخوں، پتھر کی تختیوں اورلوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کر ڈالا۔جس کے صحیفے سیدنا ابوبکر ؓکے پاس ان کی وفات تک رہے ۔ بعد میں یہی صحیفے ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر ؓکے پاس آگئے۔(صحیح بخاری ،کتاب التفسیر باب قولہ تعالی لقد جائکم رسول من أنفسکم)
خلیفہ رسول ابوبکر ؓکے اس عمل کو صحابہ رسول نے اور تمام امت نے سراہا اور امت پر ایک بڑا احسان سمجھا۔ سیدناعلیؓ بن ابی طالب نے فرمایا:
أَعْظَمُ النَّاسِ فِی الْمَصَاحِفِ أَجْرَأُ أَبِی بَکْرٍ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَی أَبِی بَکْرٍ ہُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ کِتَابَ اللّٰہِ۔
’’مصاحف کو جمع کرنے میں سب سے زیادہ جری سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ثابت ہوئے ہیں، اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہو وہ امت کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کر ڈالا۔‘
عہد نبوی میں صحابہ کا قرآن کے نسخے لکھنا
عہد نبوی میں صحابہ نے قرآن کے بے شمار نسخے لکھ ڈالے تھے یعنی قرآن کتابی شکل میں موجود تھا. ذرا ان حدیثوں پر نگاہ ڈالو جن میں صحابہ کو جو قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کی ہدایتیں فرمائی گئیں ہیں۔او ر اُن پر ثواب کے وعدے کئے گئے.
1-آنحضرت ﷺ نے فرمایا!آنکھوں کی عبادت کا حصہ آنکھوں کودو۔او ر وہ قرآن کو دیکھ کر پڑھنا۔اور اُس میں غوروفکر کرنا ہے۔(جامع الصغیر للسیوطی مطبوع مصر ج1 ص35)2۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا! جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت رکھنا چاہتا ہے۔وہ قرآن دیکھ کر پڑھا کرے۔(جامع الصغیر ج2 ص 157 و منتخب کنز العمال ص 386 ج1)3 - حضرت اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو وفد ثقیف میں آئے تھے۔جنہوں نے صحابہ سے قرآن کی سات منزلیں دریافت کی تھیں۔جن کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ انہوں نے اپنی اُسی آمد میں بھی آپ ﷺ سے سنا۔آپﷺ فرماتے تھے۔کہ بغیر قرآن کے (یعنی زبانی) اس کی تلاوت کا ثواب ایک ہزار نیکی ہے۔ اورقرآن کھول کر دیکھ کر پڑھنے کا ثواب دو ہزار ہوتا ہے۔(مشکواۃ ص180 جامع صغیر ص72 ج2۔منتخب کنزالعمال ص357و ص 262 ج1)4- اوس کے بیٹے عمرو کہتے ہیں۔کہ آپﷺ نے فرمایا!جس طرح فرض نماز کو نفل نماز پر فضیلت ہے۔اسی طرح قرآن دیکھ کر پڑھنے کو فضیلت ہے زبانی پڑھنے پر۔جامع صغیر جلد دوم ص72 و ص63 و فضائل قرآن لابن کثیر ص141)5- آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی افضل عبادت قرآن دیکھ کر پڑھنا ہے۔(جامع صغیر ص42 ج1 ومنتخب کنز ص357 ج1)6-آپﷺ نے فرمایا ! کہ جو شخص قرآن مجید کو ہمیشہ دیکھ کر پڑھا کرے گا۔جب تک وہ دنیا میں زندہ رہے گا اس کی بینائی باقی رہے گی یعنی خراب نہ ہوگی۔( منتخب کنز العمال برحاشیہ احمد جلد اول ص362)7۔آپ ﷺ نے فرمایا! کہ جو مسلمان قرآن مجید کو شروع سے ختم تک برابر دیکھ کر پڑھے گا اُس کے لئے اللہ تعالیٰ بہشت میں درخت لگائے گا۔سبحان اللہ کتاب مذکور ص363 ج1)اسی لئے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی لوگوں سے فرمایا کرتے تھے۔یعنی جب تم گھر میں داخل ہو تو سب سے پہلے قرآن کھول کر پڑھ لیا کرو۔پھر دوسرے کاموں میں مشغول ہو۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا عمل بھی اسی پرتھا۔جیسا کہ خثیمہ کہتے ہیں۔(کتاب مذکور ص370 ج1۔وفضائل قرآن ابن کثیر ص141)یعنی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مکان پر گیا تو وہ قران کھولے تلاوت کر رہے تھے۔ان کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال تھا ۔ (فضائل قرآن صفحہ 141)8- آنحضرت ﷺ نے فرمایا! کہ مومن کو اس کے مرنے کے بعد اس کے اعمال اور نیکیوں سے جن کا ثواب اُسے ملتاہے۔علم ہے کہ اس کو پھیلایا اور نسخہ قرآن ہے کہ اپنے وارث کے لئے چھوڑ گیا۔(رواہ ابن ماجہ ۔مشکوٰۃ ص28 جامع صغیر ص83 ج1)مقام غور ہے کہ آپﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین کو اپنی ذندگی میں قرآن مجید کو گھر میں رکھنے اس کو دیکھ کر پڑھنے اور وارثوں کےلئے اس کو پیچھے چھوڑ جانے کی موکد ترغیبیں دلا رہے ہیں۔پس اگر ہر صحابی کے پاس نہیں تو کم از کم اُن کے ہر گھر میں تو ایک ایک نسخہ پورے قرآن مجید کا لکھا ہوا موجود ہوگا۔ہاں ہاں یقیناً موجود تھا۔جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمین خود کہتے ہیں۔یعنی ہم صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمین کے درمیان لکھے ہوئے قرآن موجود تھے۔جس سے ہم نے سیکھا اپنے بچوں اور خادموں کو سکھایا چنانچہ اُن کے بچے بھی قرآن میں دیکھ کر پڑھتے تھے۔جیسا کہ اُسی مسند احمد میں ہے۔(مسند احمد ج5 ص266)یعنی ایک صحابی اپنے بچوں کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے۔اور کہا کہ میرایہ بچہ دن میں قرآن مجید ناظرہ پڑھا کرتاہے۔تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی ذاکر خدا ہے۔ (فضائل قرآن ابن کثیر مطبوعہ مصر صفحہ 199)صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین نے کثرت سے قرآن مجید کو لکھا اور لکھوایا اور ناظرہ خوانی شروع کی کہ آپ ﷺ کو خطرہ ہوا۔کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ اسی لکھے ہوئے قرآن پر بھروسہ کر بیٹھیں۔اور اسے حفظ کرنا ترک کردیں۔تو آپ ﷺ نے اُن کے گھروں میں بکثرت لکھے ہوئے قرآنوں کو دیکھ کر یہ بھی فرمایا9۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! کہ تم یہ لکھے ہوئے قرآن کے نسخے جوتمہارے گھروں میں لٹکے ہوئے ہیں۔حفظ کرنے سے غفلت میں نہ ڈال دیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو عذاب نہیں کرے گا۔جسکے دل میں قرآن حفظ ہو۔(منتخب کنز العمال ص362 ج1)
اللہ اکبر! معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں صحابہ نے قرآن کے بے شمار نسخے لکھ ڈالے تھے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ: قرآن پاک کو طہار ت کی حالت میں چھونا ۔ظاہر ہے کہ یہ حکم کتابی شکل کے لئے ہے۔کیونکہ جو چیز ہاتھوں سے چھوئی جاسکے۔اُسے خارج میں موجود ہونا چاہیے۔
اور سورہ واقع میں آیت 77سے 80 تک میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:-
بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے ۔ جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے ۔ جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ۔ یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے ۔
10- ام یعقوب، وہ قرآن مجید پڑھتی تھیں : انہونے آپ ﷺ سے کہا,میں نے قرآن مجید کی ( دونوں بیرونی ) تختیوں کے درمیان میں جو کچھ ہے ( پورا ) پڑھا ہے۔صحیح مسلم۔۔ (ج2ص205)/5573)صحیح بخاری کی روایت مذکورہ اس امر میں نص صریح ہے۔کہ آپ ﷺ نے قرآن مجید کو مکمل و مرتب و مجلد چھوڑا تھا۔اسی کو بوقت انتقال فرمایاتھا۔وَعَن مَالك بن أنس مُرْسَلًا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ «. رَوَاهُ فِي الْمُوَطَّأ»مالک بن انس رحمہ اللہ مرسل روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، پس جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، (یعنی) اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ “مشكوة المصابيح:186 .رواه الحاكم عن ابي هريره (جامع صغیر للسیوطی ص7 مطبوع مصر)
Read This: Muharram Aur Taziyadari part:2
قرآن کو جمع کرنا:-
حضرت زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں ، معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکر ؓ نے میری طرف پیغام بھیجا ، عمر بن خطاب ؓ ان کے پاس موجود تھے ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا : عمر میرے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : معرکہ یمامہ میں بہت سے قاری شہید ہو گئے ، اور مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر کسی اور معرکہ میں قاری شہید ہو گئے تو اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ جاتا رہے گا ، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ جمع قرآن کا حکم فرمائیں ، لیکن میں نے عمر ؓ سے فرمایا : آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ؟ تو عمر ؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم! یہ (جمع قرآن) بہتر ہے ، عمر ؓ مسلسل مجھے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور اب اس میں میرا وہی موقف ہے جو عمر ؓ کا ہے ۔
زید ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر ؓ نے فرمایا : آپ عقل مند نوجوان ہیں اور آپ پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ، اور آپ رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے ، آپ قرآن اکٹھا کریں اور اسے ایک جگہ جمع کریں ، اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے پر مامور فرماتے تو وہ مجھ پر اس جمع قرآن کے حکم سے زیادہ آسان تھا ، وہ (زید ؓ) بیان کرتے ہیں ۔ میں نے کہا : تم وہ کام کیسے کرتے ہو جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ؟ تو انہوں (ابوبکر ؓ) نے فرمایا : اللہ کی قسم! وہ بہتر ہے ، پس ابوبکر ؓ مسلسل مجھے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا جس کے لیے اس نے ابوبکر ؓ و عمر ؓ کا سینہ کھول دیا تھا ، میں نے قرآن تلاش کرنا شروع کیا اور میں نے کھجور کی شاخوں ، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں (حافظوں) سے قرآن اکٹھا کیا حتیٰ کہ میں نے سورۃ التوبہ کا آخری حصہ (لقد جاءکم رسول من انفسکم ،،،،،) آخر تک صرف ابوخزیمہ انصاری ؓ کے ہاں پایا ، وہ صحیفہ (قرآن کریم کا نسخہ) ابوبکر ؓ کے پاس رہا حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فوت کر دیا ، پھر عمر ؓ کی زندگی میں ان کے پاس رہا ، اور پھر عمر ؓ کی بیٹی حفصہ ؓ کے پاس ۔ (رواہ البخاری :986, مشکوٰۃ المصابیح:2220)
جمع عثمانی کی حقیقت:-
اوپر یہ لکھا جا چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت ایک لاکھ نسخہ قرآن مجید کے اطراف وجوانب مدینہ میں شائع ہوچکے تھے۔تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جامع قرآن کیونکر کہا جا سکتا ہے۔اگر اس وجہ سے کہ انہوں نے عہد نبوی میں اپنے لئے قرآں مجید کا نسخہ لکھا اور جمع کیا تھا جیسا کہ مفتاح السعادۃ اور ازالۃ الخلفائ کے حوالہ سے اوپرنقل ہوچکا ہے تو اس امر میں ان کی مزیت کیا ہے۔ بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اسی طور سے لکھا اور جمع کیا تھا کہ طرز تحریر یعنی رسم خط سب کے جدا تھے۔اس وجہ سے قراءتیں مختلف ہوجاتی تھیں۔اس اختلاف کودور کرنے کے لئےحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ا پنی خلافت میں ایک رسم خط اور ایک قراءۃ پرسب کو جمع کردیا۔جیساکہ حافظ ابن کثیر نے کتاب فضائل قرآن میں لکھا ہے۔
یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو ایک قراءۃ پرجمع کر دیاتھا۔تاکہ لوگ قرآن پڑھنے میں اختلاف نہ کریں اس لے وہ جامع الناس الی ہذا القرآن تو بے شک ہیں جامع قرآن نہیں ہیں۔جیسا کہ حارث محاسبی نے کہا۔کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کے جمع کرنے والے ہیں۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جو صحیح بخاری میں ہے۔(مطبوع مصر صفحہ32و70)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند کاتبوں کو بلوا کر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیجا کہ حضرت ابو بکر والاقرآن بھیج دو اکہ اس کی متعدد نقلیں کرائی جایئں۔چنانچہ حضرت زیداوردیگر کاتبوں نے کئی نسخے لکھے جب نقلیں ہوچکیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اطراف و جوانب میں بھجوا دیا۔
قرآن مجید اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔وہ بعینہ وہی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریئل ؑ کی معرفت اپنے ر سول محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔اور اسی ترتیب پر ہے۔جس پر آپ ﷺ نے اپنے عہد سعادت میں لکھوایا۔صحابہ کرام کو یاد کروایا۔اورخود پڑھا۔نہ اس کے کلمات میں کمی بیشی ہوئی نہ اس کی ترتیب میں تبدیلی ہوئی۔
یعنی جس ترتیب سے آج قرآن پڑھا جاتا ہے۔وہ وہی ہے جس ترتیب سے آپ ﷺ تلاوت کیا کرتے تھے۔قرآن مجید کا ایک خاص ترتیب میں ہونا صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ثابت ہوتاہے۔
یعنی ہر سال آپ پرایک قرآن سنایا جاتا۔اور وفات کے سال دو بار سنایا گیا ظاہر ہے کہ دور میں جب تک کوئی خاص ترتیب ملحوظ نہ ہو کسی کتاب کے(جس کے اجزاء متعدد اورمضامین مختلف ہوں) کامل ختم کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے۔پس وہ ترتیب وہی ہے
Note:-
حضرت عثمانؓ پر قرآن کریم میں کمی زیادتی کا الزام لگانے والے یہ نہیں سوچتے کہ اگر یہ الزام صحیح مانا جائے تو اول تو اللہ پر الزام آتا ہے کہ اس نے جو وعدہ سورۃ نمبر15؍ آیت نمبر9؍ میں قرآن کی حفاظت کا کیا تھا وہ اس کو پورا نہ کر سکا، اور حضرت عثمان کے سامنے اللہ بے بس ہوگیا۔ (العیاذ باللہ)دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ اور بعد کے اماموں کا زمانہ آتا ہے جو اسی قرآن کو پڑھتے پڑھاتے رہے اور قرآن کی تصحیح نہیں کر سکے، میں نہیں سمجھتا کہ اہل بیتؓ پر اس سے بڑا کوئی الزام لگایا جا سکتا ہے، اس لئے قرآن کریم میں نہ کوئی تغیر ہوا ہے اور نہ قیامت تک ہوگا، کمی زیادتی کا دعویٰ کرنے والا اپنی جہالت کا ثبوت دے رہا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں
Read This: Mazar par Chadar Aur Qabar parasti
قرآن پر اعراب لگانا:-
اَعْرَاب کے اردو معانی ہوتا ہے ملک عر ب کے باشندے ,عرب کے بدو، صحرا نشین یا دیہات کے عربی لوگ یا ملک عرب کے فصحا، عرب کے اہل زبان
اِعْراب کا معنی ہوتا ہے حرکات، زبر زیر پیش جزم اور تشدید ، یعنی ظاہر کرنا
اسی لئے عرب کو عرب کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی زبان میں اتنی وسعت ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ہر بات الفاظ کے سانچے میں بیان کر سکتا ہے اور غیر عرب کو عجم اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی زبان بہر حال کہیں نہ کہیں اس کے افکار کے آگے گونگی ہو جاتی ہے۔
شروع شروع میں قرآن جب نازل ہوا اور جب لکھا گیا تو اس وقت نہ حروف پر حرکتیں تھی نہ ہی نقطے!اس وقت عرب اپنی عربی ذوق کی وجہ سے قرآن صحیح پڑھتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح ہم اردو پڑھتے ہیں حالانکہ زیر زبر نہیں ہوتا لیکن ہم (اِس)اور(اُس)،(اِن)اور (اُن) ...میں اشتباہ نہیں کرتے اس زمانیں میں عرب بھی عربی پڑھنے میں غلطی نہیں کرتا تھا البتہ ذوق عربی کے علاوہ دو اور ایسے عامل تھے جس کی وجہ سے غلطی کا امکان اور بھی گھٹ جاتا تھا
سب سے پہلے قرآن مجید کے حروف پر نقطے لگاۓ گۓ ، پھر حرکات ، سکنات ، اور اعراب لگاۓ گۓ ، پھر قرآن مجید کو صحیح پڑھنے کے لیے قراءت اور تجوید کے قواعد مقرر کیے گۓ اور عام لوگوں کی سہولت کے لیے قرآن مجید کی آیتوں پر رموز اوقاف کو لکھا گیا ۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ”عن ابی ھریرہ قال :قال رسول اللہ ﷺ اعربو االقرآن(رواہ البیہقی و ابو العلٰی )اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کو صحیح اعراب سے پڑھو۔اگر تحریر کا ارشاد ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین ضرور تعمیل کرتے
ابتداء زمانے میں قرآن پاک پر نقطے اور اعراب نہیں لگے ہوتے تھے، لوگ بغیر نقطے اور اعراب کے ہی قرآن پاک پڑھ لیتے تھے، لیکن جب عجمی لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے اور انہیں بغیر اعراب کے قرآن پڑھنے میں مشقت ہونے لگی، تو حضرت ابو الاسود دؤلیؒ نے قرآن پاک پر نقطے اور اعراب (حرکات) لگانے کی ابتداء فرمائی، اس کے بعد حجاج ابن یوسف کے حکم سے تین حضرات (حسن بصری، یحییٰ بن یعمر، نصر بن عاصم) نے اس کی تکمیل فرمائی۔لیکن حجاج بن یوسف والی روایت اتنی مضبوط نہیں ہے.
واضح رہے کہ قرآنِ پاک تو ابتدا سے ہی اعراب سمیت پڑھا جاتاہے، البتہ ابتدا زمانے میں قرآنِ پاک کے نسخوں اور تحریرات میں عربی کے قدیم رسم الخط کے مطابق نقوش پر نقطے اور اعراب نہیں لگے ہوتے تھے، لوگ نقطے اور اعراب لگائے بغیر ہی الفاظ کا تلفظ سمجھ جاتے تھے، چناںچہ قرآنِ مجید بھی پڑھ لیا کرتے تھے، لیکن جب عجمی لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے اور ان کو بغیر اعراب اور نقطوں کے قرآن پڑھنے میں مشقت ہونے لگی، تو حضرت ابو الاسود دؤلی رحمہ اللہ نے قرآن پاک پر نقطے اور اعراب ( حرکات) لگانے کی ابتدا فرمائی، اس کے بعد حجاج بن یوسف کے حکم سے تین حضرات (حسن بصری، یحیی بن یعمر، نصر بن عاصم رحمہم اللہ) نے اس کی تکمیل فرمائی۔
بنو امیہ کے بادشاہ عبد الملک بن مروان کے دورِ حکومت میں عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر حضرت حسن بصری اور حضرت یحيٰ بن یعمر رحمہ اللہ نے قرآن مجید کے نقطے لگائے تھے۔احکام القرآن للقرطبی: (63/1), البدایۃ و النھایۃ: : (124/9)
Note:- غور و فکر کرنے والی بات ہے کہ اللّٰہ نے جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعہ اپنے نبی کریم ﷺ پر جو قرآن اُتارا اور نبی ﷺ اور صحابہء کرام نے جیسے پڑھا کیا آج اس پر اعراب لگنے سے قرآن کے الفاظ کی ادائیگی یا تلفظ میں کُچّھ تبدیلی ہوئی ہے. بلکل نہیں.
تو پھر یہ اہلِ بدعت کیوں قرآن پر لگے اعراب کو بدعت بولتے ہیں ؟ انہیں اللّٰہ کا ذرا بھی خوف نہیں کہ جسکی حفاظت خود اللّٰہ کر رہا ہے اُس میں کُچّھ اضافہ یا تبدیلی ممکن ہے.
ایسا صرف اس لئے کہ اہل بدعت کی تمام ایجاد کردہ بدعتیں کسی بھی طرح دین اور سنت بن جائے اور ان کے بزرگ صحیح ثابت ہو جائے جو کہ کبھی ھوگا نہیں.
حدیثوں کو لکھنا یا کتابی شکل دینا
ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے (بعض حدیثوں کا لکھنا)
1۔مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک بار ایک حدیث لکھ کر بھیجی۔(بخاری احمدی۔ص200 ج1۔وص937 ومسلم ج1 ص 218)
پھر دوسری بار دوسر ی حدیث لکھ کر روانہ کی.(بخاری ص958۔ص979ج2۔مسلم ج6ص76)2۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مردان کو حدیث شغار لکھ کر بھیجی تھی۔(ابو دائود مصری ص81 ج2 مسند احمد ص182 ج5)3۔نیز زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث سن کر اُسے لکھ لینے کا حکم دیا تھا۔(ابو دائود مصری ص81 ج2 مسنداحمد ص182 ج5)3۔فاطمہ بنت قیس صحابیہ رضی اللہ عنہا نے ابو سلمہ کو حدیث لکھوائی تھی۔(صحیح مسلم ص484 ج1)4۔ابو بکرہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے عبید الرحمٰن سے دوسرے بیٹے عبید اللہ کے پاس حدیث لکھوا کر بھیجی تھی۔(صحیح مسلم77ج2)5۔عبد اللہ بن ابی اوفیٰ اصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر بن عبید اللہ کی طرف حدیث تحریر کر کے روانہ کی تھی۔ (بخاری ج1 ص 425۔و ج2 ص 1075)6۔ابو سعید خدری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشہد والی حدیث تحریر کرنے کے مقر ہیں۔(ابو دائود مع عون المعبود ج3 ص 357)7۔جابر بن سمر ہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عامر بن سعد کو حدیث خلفاء قریش تحریر کر کے بھیجی تھی۔ (مسلم ج1 ص 119)حدیث زکر حوض کوثر لکھ کر دوسری بار روانہ کی ۔ (مسلم 2 ص 252)غالباً انھیں جابر کی بابت حافظ ابن عبد البر نے جامع بیان العلم میں تحریر کیا ہے۔یعنی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تختیوں میں حدیثیں لکھتے تھے۔(ج1 ص72)8-رافع بن خدیج صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنھوں نے حدیث لکھنے کی اجازت آپﷺ سے حاصل کی تھی۔(دیکھو ثبوت اول کا نمبر 3) اُن کے حدیث لکھنے کا ثبوت ملاحظہ ہو۔وہ مروان سے کہتے ہیں۔یعنی مدینہ کے حرم ہونے کی حدیث میرے پاس خولانی چرم کے فرد پر لکھی ہوئی ہے۔اگر چاہو تو اسے لا کر تمیں سنادوں۔(صحیح مسلم صفحہ 440 ج1۔مسند احمد ج4 ص141)9۔حضرت ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سن کر لکھا کرتے تھے۔ (ابن سعد ج2 ص123)پھر دوسروں کو بھی حدیث لکھدیا کرتے تھے۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ مدعیٰ علیہ پرقسم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن ملکہ کو بھیجی۔صحیح مسلم میں ہے کہ نجدہ حروری کو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث لکھی۔(مسلم ج2 ص116)چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لکھوائی ہوئی حدیثوں کی کتاب اہل طائف کے پاس موجود تھی۔10۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عہد نبوی میں ایک روایت آپﷺ سے سن کر لکھی پھر لکھ کر آپﷺ کو سنائی۔(مستدرک حاکم ج3 ص 574)اپنے ایک بیٹے کو بھی حدیث لکھنے کا حکم دیا۔اور کہا اے بیٹے! اس حدیث کو لکھ لو اُس نے لکھ لیا۔پھر اپنے دونوں بیٹوں کو عام طور سے تمام حدیثوں کو تحریر میں لانے کا حکم دیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت بیٹے دیئے ۔تو اپنے سب بیٹوں کو حدیثیں لکھنے کا حکم دیا۔(دارمی۔مستدرک حاکم۔جامع العلم ج1 ص 73)
یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے تمام بیٹوں سے فرماتے کہ علم حدیث کوقید تحریر میں لاؤ۔ابان کا انس سےحدیث لکھنا دارمی ص68 میں منقول ہے۔
صحابہ کا تمام حدیثوں کا لکھنا
1۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام حدیثیں لکھنے کا حکم (ملنا) ثبوت اول کے نمبر 4 میں بیان ہوچکا ہے اب ان کا عمل سنئے۔حضرت عبد اللہ ساری حدیثیں لکھا کرتے تھے۔اور آپﷺ کے پاس بیٹھ کرلکھا کرتے تھے۔(دارمی) (بخاری احمدی ج1 ص 22۔ترمذی۔ص547) ان تمام احادیث کے مجموعہ کا نام انہوں نےصحیفہ ء صادقہ رکھا تھا۔چنانچہ فرمایا کرتے ۔
یعنی یہ حدیث کتاب میں آپ ﷺ سے سن کرلکھی ہے۔اس لئے میری تمنا ہے کہ میں ابھی کچھ دنوں اور زندہ رہوں تاکہ اس سے فائدہ اٹھائوں وہ اس صحیفہ کو مختلف لوگوں کو دکھلایا کرتے تھے۔چنانچہ ترمذی میں ہے۔(داارمی۔ابن سعد۔جامع البیان العلم ج1 ص 72)یعنی حضرت عبد اللہ نے اپنے صحیفہ کو ابو راشد کودیکھاتے ہوئے کہا کہ یہ مجھے آپﷺ نے لکھوایا ہے۔یہ کتاب ان کے پوتے عمر بن شعیب کے پاس موجود تھی۔جسے دیکھ کر وہ حدیث بیان کر تے تھے۔اسی وجہ سے ان پر ضعف کا حکم لگا۔(ص508),(ترمذی ص116۔74)صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی حدیث کی یہ پہلی کتاب ہے۔2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس احادیث نبویہ بہت سی کتابوں میں لکھی ہوئی موجو د تھیں۔چنانچہ حسن بن عمرو کہتے ہیں۔ہم کو ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کی بہت سی کتابیں دیکھائیں۔جو ان کے پاس تھیں۔ان سے تابعی لوگ حدیثیں نقل کیا کرتے تھے۔(فتح الباری انصاری پارہ اول ص105 وجامع بیان العلم الابن عبد البر ج1ص 74)3۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حدیثوں کو ایک کتاب میں لکھ رکھا تھا۔جسے ان کے بیٹۓ عبد الرحمٰن لوگوں کو دیکھایا کرتے تھے۔چنانچہ معن کہتے ہیں۔کہ عبد الرحمٰن نے مجھے ایک حدیث کی کتاب دیکھائی۔پھر قسم کھائی کہ میرے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔(جامع بیان العلم ج1 ص 72)
رہا یہ عمل کے آپ ﷺ نے اپنی حدیثوں کو لکھنے سے منع فرمایا دیا تھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
ہداب بن خالد ازدی نے کہا : ہمیں ہمام نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھ سے ( سنی ہوئی باتیں ) مت لکھو ، جس نے قرآن مجید ( کے ساتھ اس ) کے علاوہ میری کوئی بات ( حدیث ) لکھی وہ اس کو مٹا دے ، البتہ میری حدیث ( یاد رکھ کر آگے ) بیان کرو ، اس میں کوئی حرج نہیں ، اور جس نے مجھ پر ۔۔۔ ہمام نے کہا : میرا خیال ہے کہ انھوں ( زید بن اسلم ) نے کہا :۔۔۔ جان بوجھ کر جھوٹ باندھا ، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ (صحیح مسلم: 7510)
Read This: Shirk Kya hai ?
امام ابو حنیفہ ؒ کا فیصلہ
امام ابو حنیفہ ؒ نے حدیثوں کے لکھنے کے ثبوت میں قرآن مجید کی ایک آیت سے دلیل پکڑی ہے۔طحاوی لکھتے ہیں۔
ابو حنیفہ نے فرمایا جب کہ اللہ تعالیٰ نے شک و شبہ سے بچنے کےلئے قرض کے لکھ لینے کا حکم اس آیت میں دیا ہے۔ارشاد ہے قرض تھوڑا ہویا زیادہ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔اسے مدت سمیت لکھو۔یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے۔اور شہادت کو ٹھیک رکھنے والا ہے۔تم شک و شبہ میں نہ پڑو گے۔
تو علم حدیث کا یاد رکھنا قرض کے یاد رکھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔لہذا حدیث میں شک و شبہ سے بچنے کےلئے اس کے لکھنے کی اجازت و اباحت زیادہ ضروری ہے۔سبحان اللہ کیا خوب استدلال ہے۔.(شرح معانی الاثار ج2 ص384)
" میری حدیث نہ لکھو جس نے لکھی ہو وہ مٹا دے"۔سو واضح ہو کہ یہ حکم صرف زمانہ نزول قرآن تک مختص تھا۔اس لیے کہ اس وقت قرآن لکھا جا رہا تھا۔اس کے ساتھ حدیثوں کے مل جانے کا خدشہ تھا۔جب قرآن کتابی صورت میں جمع ہوچکا۔تو آپﷺ نے حدیثیں لکھنے کی اجازت دے دی۔بلکہ خود بھی لکھوائیں۔اس طرح پہلی ممانعت کو خود ہی اٹھا دیا۔
Continue to Part 3....
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
Conclusion:
اوپر کے تمام دلائل کی روشنی میں آپ نے پڑھا کہ Ahle Bid'at ke Sawalat Aur Aitrazat کرنا کس حد تک جاہلیت پر مبنی ہے.اور ان کی عقل اور سوچ پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کُچّھ دین کا علم رکھتے بھی ہیں یا نہیں کہ جس کتاب کی حفاظت کی ذمےداری خود اللّٰہ تعالیٰ نے لی ہے بھلا اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی یا اضافہ کیسے ہو سکتی ہے. کیا سورہ الحجر کی آیت انکے اور انکے بزرگوں کے آنکھوں کے سامنے سے نہیں گزری.بھلا گذریگی بھی کیسے.انہیں اپنے پیر بزرگوں کی جھوٹی قصے کہانیوں سے فرصت ملے تب نہ.قرآن کریم تو نبی ﷺ اور صحابہء کرام کے ہی دور میں کتابی شکل میں تھا تبھی تو قرآن دیکھ کر پڑھنے پر ثواب کے وعدے کیے گئے ہیں.اور آج بھی قرآن اُسی طرح پڑھا جاتا ہے جیسے نبی کریم ﷺ نے صحابہء کرام کو سنایا اور پڑھایا.
قرآن مجید اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔وہ بعینہ وہی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریئل ؑ کی معرفت اپنے ر سول محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔اور اسی ترتیب پر ہے۔جس پر آپ ﷺ نے اپنے عہد سعادت میں لکھوایا۔صحابہ کرام کو یاد کروایا۔اورخود پڑھا۔نہ اس کے کلمات میں کمی بیشی ہوئی نہ اس کی ترتیب میں تبدیلی ہوئی۔
اور احادیث مبارکہ بھی نبی کریم ﷺ کے دور سے ہی لکھی اور کتابی شکل میں کی گئی ہے. اہلِ بدعت حضرات اپنی ایجاد کردہ بدعت کو صحیح ثابت کرنے سے بہتر ہے کہ صحیح دین کو سمجھیں اور اللّٰہ و اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں تاکہ اللّٰہ کی پکڑ سے بچ سکیں.
FAQs:
Que: کیا قرآن کو کتابی شکل دینا بدعت ہے ؟
Ans: نہیں بلکل نہیں ! کیونکہ قرآن کتابی شکل میں ہونے کے باوجود بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے.اور سب سے بڑی بات کہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمےداری خود اللّٰہ تعالیٰ نے لی ہے تو اس میں اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں.
Que: کیا قرآن پر اعراب لگانا بعد کی ایجاد یا بدعت ہے ؟
Ans: قرآن پر اعراب شروع سے ہی موجود ہے بس بعد میں قرآن پڑھنے والوں کے لئے جب مشکلیں آ پڑی تو اعراب کو ظاہر کر دیا گیا تاکہ پڑھنے والے صحیح الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ قرآن پڑھ سکیں.تو یہ بدعت کیسے ہو گئی.
Que: اسلام میں اچھے طریقے سے کیا مراد ہے ؟
Ans: اسلام میں اچھے طریقے سے مُراد جس میں کوئی بھی عمل ہو اُس کی جڑ دین میں پہلے سے موجود ہو یعنی اصل دین اپنی جگہ پر رہے اُس عمل میں کوئی تبدیلی یہ اضافہ نہ ہو. کسی عمل یا دین کو بغیر تبدیلی کے کسی نئے طریقے سے پیش کر دیا جائے تو یہ اچھا طریقہ یعنی سُنَةً حَسَنَةٌ " ہوگا جیسے قرآن و حدیث کو کتابی شکل دینا. یہ کتابی شکل دینے کے بعد بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں
Que: قرآن دیکھ کر پڑھنے کی کیا فضیلت ہے ؟
Ans: آپﷺ نے فرمایا ! کہ جو شخص قرآن مجید کو ہمیشہ دیکھ کر پڑھا کرے گا۔جب تک وہ دنیا میں زندہ رہے گا اس کی بینائی باقی رہے گی یعنی خراب نہ ہوگی۔( منتخب کنز العمال برحاشیہ احمد جلد اول ص362)
Que: آنکھوں کی عبادت کا حصہ کیا ہے ؟
Ans: آنحضرت ﷺ نے فرمایا!آنکھوں کی عبادت کا حصہ آنکھوں کودو۔او ر وہ قرآن کو دیکھ کر پڑھنا۔اور اُس میں غوروفکر کرنا ہے۔(جامع الصغیر للسیوطی مطبوع مصر ج1 ص35)
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.thanks